Sunday, December 27, 2009

Obesity and Homeopathy

ڈاکٹر محمد امین
موٹاپا
جسم میں موجود چربی کے ذخیروں میں ضرورت سے زیادہ چربی کے اکٹھا ہونے کی حالت کو موٹاپا کہتے ہیں۔ یہ اہم غذائی خرابی سے پیدا ہونے والی پیچیدگی ہے جوکہ زیادہ تر دنیا کے امیر ممالک میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔
موٹاپے کی وجوہات:
عمر: یہ تمام عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے مگر عام طور پر درمیانی عمر کے لوگ موٹاپا کا شکار زیادہ ہوتے ہیں۔
جنس: ایک اندازے کے مطابق23 فیصد مرد اور25.4 عورتیں موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں۔
غذائی عادات:۔ موٹاپے کا سب سے بڑا سبب زیادہ کھانا یا غلط اقسام کی غذا کھانا ہے۔
موروثی وجوہات: بہت سے کیسز میں موٹاپے کی خاندانی تاریخ بھی مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
جسمانی سرگرمی:۔ یہ ان لوگوں میں جو سست عادات کے حامل ہوتے ہیں کام کاج سے کترانا بیٹھنے کو ترجیح دینا میں زیادہ ہوتا ہے چست عادات والے لوگ جو زیادہ بھاگ دوڑ میں لگے رہیں کم موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں
نفسیاتی وجوہات:۔ جذباتی انتشار کے نتیجے میں زیادہ کھانے کی عادت انسان میں بڑھتی ہے جوکہ موٹاپے کی طرف لے جاتی ہے۔
معاشی پس منظر:۔ ترقی پذیر ملکوں میں یہ امیروں میں عام مسئلہ ہے جوکہ اپنی خوراک میں لحمیات روغنیات اور نشاستہ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور سست عادات کے مالک ہوتے ہیں ۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ کم معاشی حیثیت والے لوگوں کے گروہوں میں عام ہے۔
ایڈوکرائن کے سبب: اینڈوکرائن گلینڈ بلا نالی گلینڈ سے رطوبت کے اخراج جیسے ہارمون بھی کہتے ہیں کی خرابی بھی موٹاپا کا اہم سبب بنتا ہے۔تھائی رائیڈ ہارمونز کی وجہ سے اور جسم میں چکنائی کا بڑھتا ہوا تناسب وغیرہ بھی موٹاپے کا باعث ہیں۔
حمل: حمل کے دوران ایک عورت میں چربی کی مقدار بڑھتی ہے جس کی وجہ سے جسم کا وزن4.5 کلو گرام بڑھ جاتا ہے اور یہ حمل کے دوران بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
جگر:ہمارا جگر غذا میں موجود غذائی اجزاءکو کیمیائی عمل سے گزارنے اور ان کو جسم کے دوسرے حصوں تک بھیجنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے گلوکوز یا چربی کی جگہ میں غیر معمولی ترسیل ذیابیطس اور جسم میں کولیسٹرول کے بڑھ جانے کا سبب ہوتی ہے۔ چربی کی وجہ سے بڑھا ہوا جگر بھی عام طور پر ان لوگوں میں مشاہدہ میں آیا ہے جوکہ موٹے ہوتے ہیں یا جو انسولین کی مزاحمت سے متاثر ہوں جگر کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ دل کی بیماری کے خطرے کو کنٹرول کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
جنیاتی اسباب:۔ prader-willi syndrom،پیدائشی ذ ہنی پسماندگی اور زیابطیس لارنس مون بیڈی سینڈروم موٹاپا بڑھانے کا اہم سبب بنتے ہیں
Hypothalamic Syndrom اور ہائپوتھیلمس کے زخموں اور رسولیوں کی وجہ سے Polyphagiaبہت زیادہ کھانا بسیار خوری موٹاپا بڑھتا ہے۔
موٹاپے کی اہم علامات:
1۔ نارمل جسمانی وزن سے جسم کا وزن 20 فیصد زیادہ ہونا۔
2۔ مردوں میں شانے کی نوک پر چربی کی تہہ2.5 سم سے زیادہ یا عورتوں میں ٹرائی سیپ کا درمیانی حصہ۔
طبی علامات:۔ جسم کا وزن تیزی سے بڑھتا ہے اور آہستہ آہستہ جسم کی ساخت اور بناوٹ میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ چربی سارے جسم میں ایک جیسی مقدار میں تقسیم ہو جاتی ہے مگر بعض حالات میں جسے Cushing's syndromمیں یہ سر یا گردن کندھوں اور شانوں میں بڑھ جاتی ہے اور ٹانگوں کو چھوڑ دیتی ہے(بھینس کی طرح کی تقسیم) جیسے جیسے جسم بھاری ہوتا جاتا ہے۔ حرکات آہستہ ہوتی جاتی ہیں اور کم حیاتی طاقت کی وجہ سے ذرا سی مشقت سے سانس پھول جاتا ہے۔
بعض اوقات ہوا کا اخراج بہت کم ہو جاتا ہے سانس والے عضلات کی اونچی حالت کی وجہ سے یہ موٹاپے کی وجہ Hypoventilation syndrome کہلاتا ہے۔ یا اس کو رک رک کر سانس آنے سے شناخت کیا جاتا ہے آکسیجن کی ترسیل میں کمی، جلد کا نیلا ہوجانا۔ سانس کی نالی میں سوزش ہوا کے اخراج میں خرابی، دائیں ونٹریکل میں رکاوٹ دائیں ونیٹریکل کا بڑھ جانا اور فیل ہو جانا جیسے کہ چربی میں حرارت کے زائل ہونے کے اثرات ہوتے ہیں یہ گرمیوںکے موسم میں بہت زیادہ بے آرامی کا سبب ہوتی ہے۔
خواتین میں ماہانہ نظام کی خرابی بھی موٹاپا کا اہم سبب ہو سکتی ہے۔
مریض کو اپنی ٹانگوں کے وزن پر بیٹھنے میںمشکل پیش آتی ہے کرسی پریا کسی گاڑی میں اٹھنے اور بیٹھے میں مشکل ہو سکتی ہے یا آہستہ آہستہ کچھ مریض مکمل طور چلنا پھرنا بند کر دیتے ہیں اور کسی کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔
پیچیدگیاں:
1۔ میکازکی: جسم کے زیادہ وزن کے سبب، جسم کا وزن اٹھانے والے جوڑوں مثال کے طور پر گھٹنا، ٹخنہ کولہا وغیرہ میں بھر بھرا پن اور تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ پیٹ میں ہرنیا ہو سکتا ہے ۔ ایسوفیگس میں ہرنیا وریدوں کا تنگ ہونا اور پاﺅںچپٹا ہونا جیسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
2۔ انفیکشن: جلد کی تہوں میں پھیلاﺅ کی وجہ سے صفائی برقرار نہیں رکھی جا سکتی اس لئے فنگس کی وجہ سے یا دوسرے انفیکشن ان جگہوں پر بہت عام ہو جاتے ہیں۔
3۔ کارڈیو وسکولر:(دل کی بیماریوں سے متعلق):
ہائپر ٹینشن(بلڈ پریشر کا بڑھ جانا) خون کی نالیوں میں کولیسٹرول کا زیادہ ہوجانا جیسی بیماریوں لاحق ہو سکتی ہیں۔ درمیانی عمر کے افراد کو انجائنا یا ہارٹ فیل ہو سکتا ہے۔
4۔ میٹابولک: ذیابیطس، خون کی نالیوں کا تنگ ہو جانا کولیسٹرول کی پتھریاں گنٹھیا وغیرہ ہو سکتے ہیں۔
5۔جسمانی پیچیدگیاں:۔ مختلف جسمانی پیچیدگیاں موٹاپا کا شکار لوگوں میں پیدا ہو سکتی ہیں
6۔ حمل کے دوران اور عمل جراحی میں بھی مختلف خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
7۔ خاص اقسام کے سرطان میں ناقابل بیان اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر پتہ ‘بڑی آنت‘ اینڈ ومیٹیریم اور چھاتی وغیرہ۔
زندگی کی امید:
موٹے لوگوں میں زیادہ لمبی زندگی کی امید کم ہو جاتی ہے بانسبت ان لوگوں کے جو زیادہ موٹے نہیں ہوتے
علاج
Aغذا پر کنٹرول:
ایک متوازن غذا مریض کے متوقع وزن کے لئے مناسب ہوتی ہے۔ غذا میں بھرپور لحمیات شامل ہونی چاہئیں جبکہ چربی اور نشاستہ کم ہونا چاہئے۔1000 حراروں کی خوراک میں 100 گرام نشاستہ 50 گرام لحمیات اور 40 گرام چربی ہونی چاہئے الکوحل سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ معدنیات: حیاتین، پانی اور نمکیات ممنوع نہیں ہونے چاہئیں۔
B ورزش: جسمانی ورزش کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
C ادویات: بھوک روکنے کی ادویات خاص طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ میٹابولزم کے عمل کو تیز کرنے کے لئے بعض اوقات تھائی رائیڈ ہارمون بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔
Dڈائینگ یا کھانا نہ کھانا ڈائٹنگ یا فاقہ کرنا بعض اوقات معاون ثابت ہوتا ہے۔
E جراحی: مخصوص حصوں کے موٹاپے کو کم کرنے کے لئے جراحی بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ عمل جراحی کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ معدہ کو چھوٹا کرنا معدہ کا بائی پاس۔ گیسزوپلاسٹی۔ چھوٹی آنت میں عمل جراحی اور دیگر طریقہ کار طریقہ کار۔
Roux -en- Y procedure اس میں معدہ کے سائز کو چھوٹا کر دیا جاتا ہے اور اس میں بھرے ہونے کا احساس تخلیق کیا جاتا ہے قے آنا اس کا عام مضر اثر ہے۔
لائپو سکشن: جسم کے مخصوص اعضاءسے چربی کو ختم کر دیا جاتا ہے عام طور پر اس کے بعد جسم کے دوسرے حصوں کا وزن بڑھ جاتا ہے۔
F یوگا: کچھ آسن ایسے ہیں جو وزن کم کرنے میں بہت موثر ثابت ہوتے ہیں جسے سکھ آس، کندھوں کو پھیلانا، سوریا نمسکار آردھا مدسینڈر آسن،ٹدآسن فش پوز(مٹیاآسن) ساﺅ آسن کپالا بھاٹی انولوما ولوما وغیرہ۔
ہومیوپتھی طریقہ علاج:
کلکیریا کارب: یہ اس شخص کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس کو بہت پسینہ آئے اور وہ کھانا کھانے کے فوراً بعد بھوک محسوس کرے بہت کھانا اور سست نظام ہضم، ناقابل ہضم اشیاءکی خواہش کے ساتھ بدہضمی۔ ذرا سی مشقت سے جسم کے اوپر کے حصے میں بہت زیادہ پسینہ آنا خاص طور پراہم ہے۔
سنکونا آف(چائنا): یہ موٹاپے میں بھوک کو کم کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ بدہضمی کچے پھل اور سبزیاں کھانے کے بعد یہ ان لوگوں کے لئے تجویز کی جاتی ہے۔ جن کا وزن بہت زیادہ ہو مگر وہ اندرونی طور پر کمزور ہوں۔
لائیکوپوڈیم: موٹاپا جوکہ جگر اور نظام ہضم کی خرابی کی وجہ سے بڑھے۔ میٹھے کی خواہش کم ہوجانا، بھوک کم ہونا بدہضمی پیٹ کے نچلے حصے میں گیس کی کیفیت کے ساتھ بہت بھوک لگنا مگر کچھ نوالوں کے بعد پیٹ بھرا ہوا محسوس کرنا۔
تھائیرائیڈ نیم: موٹا پا تھائی رائیڈ کی خرابی کی وجہ سے بڑھنا یہ دوائی ایک طاقتور/ پیشاب آور ہے اور مائیکسوڈیما اوراستسقاءکی دیگر اقسام میں بہت مفید ہے۔
کیلوئراپس: یہ دوائی وزن کم کئے بغیر چربی گھٹانے کےلئے استعمال ہوتی ہے جیسے کہ گوشت کم کر دیا جائے گا پٹھے سخت اور مضبوط ہوں معدہ میں جلن ایک اچھی رہنما علامت ہے۔
اینٹم کروڈ: یہ دوران مریضوں کو دی جاتی ہے جن میں موٹا ہونے کا رحجان زیادہ کھانے اور بدہضمی اور زبان پر سفید تہہ کی وجہ سے ہے۔
فائٹولیکا بیری: یہ وزن کم کرنے کی بہت عام تیار دوا ہے۔
فیوکس ویسی کولس: یہ دوا کلکیریا کا ربونیکا کے بعد دی جاتی ہے ۔ یہ مدر ٹنکچر میں دی جانی چاہئے یہ بدہضمی کے حالت میں بہت مفید ہے گیس اور قبض میں مفید ہے اور ان لوگوں کے لئے بہت موثر ہے جن کے تھائی رائیڈ غدور بڑھے ہوتے ہیں۔
گریفائیٹس: موٹی سفید عورتوں میں ماہواری نظام کے دیر سے آنے کی وجہ سے ہونے والے موٹاپے میں دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ان لوگوں کو دی جاتی ہے جن کو قبض ‘ جلد کا کوئی نہ کوئی مسئلہ ہواور جنسی رغبت کھو چکے ہوں
کارلسباد:یہ دوا جگر پر بہت اچھا کام کرتی ہے اگر جگر کے اوپر چربی اور وزن میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہو تو یہ دوائی ایسے موٹاپا کو ختم کرنے میں بہت مفید ہے
فائٹولائن:یہ جسم میں فالتو چربی کو کم کرنے میں بہت اہم دوا ہے اور یہ ایسے مریضوں کو دی جاتی ہے جن کو چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہو اور دل کی دھڑکن نارمل سے کہیں زیادہ بڑھ جایا کرے تو بہتر کام کرتی ہے‘سانس لینے میں دشواری‘زیادہ کام کرنے پردم کشی‘معدہ میں گیس کا پر شور اخراج اور ڈکار آئیں تو یہ مدرٹنکچر میں بہت اچھے رزلٹ دیتی ہے
Esculentine : یہ دو چربی کو کم کرنے کے لئے مفید ہے جو فائٹولائن کے ساتھ ادبدل کر استعمال کی جاتی ہے اور اچھا اثر کرتی ہے جس سے موٹاپا جلد کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یہ ادویات ٹنکچر کی شکل میں دی جاتی ہیں۔
ہومیوپیتھک کی دیگر ادویات میں جو مریض کی علامات کے مطابق استعمال کی جا سکتی ہیں یہ ہیں۔امونیم کارب‘امونیم میور‘آئیوڈیم‘ارجنٹم نائٹریکم‘کوفیاکروڈ‘کیپسیکم‘فیرم فاس‘اگنیشا‘کالی کارب‘کالی بائیکروم‘سٹیفی ‘اورم میٹ‘نیٹرم میوراوردیگر
اذخود ادویات کا استعمال خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تما م ادویات اپنے معالج کی ہدایت پر استعمال کریں

Friday, December 11, 2009

Acne and homeopathy Treatments

ہومیوپیتھک ادویات اور کیل ‘مہاسے‘دانے


سلفر:عام طورپر ہم کیل‘مہاسے اور چہرے کے دانوں کا علاج اس دوا سے شروع کرتے ہیں

بربرس اکوی فولیم:ہومیوپیتھک کی یہ دوائی چہرے کے دانوں کی مخصوص دوا کے طور پرجانی جاتی ہے جو خاص کر مدر ٹنکچر کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے10قطرے صبح دوپہر اور شام استعمال کرنے سے بہترین رزلٹ حاصل ہوجاتے ہیں اور جلد کی رنگت کو نخارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور چند دن کے استعمال سے رنگ سرخ و سفید ہو جاتا ہے

مرک سال:یہ پرانی چہرے کی ایکنی ‘دانوں میں پیپ اور سوزش کیلئے بہترین ہے

کلکریا سلیسلیکا:اگر شدید قبض کی وجہ سے چہرے پر ایکنی‘داغ‘دانے ‘اور مہاسے نکل آئیں تو یہ دوا اہم کردار ادا کرتی ہے

بووسٹا:چہرے پر میک اپ اور بہت زیادہ کاسمیٹک کے استعمال سے اگر دانے نکل آئیں تو یہ دوائی کامیابی سے دی جا سکتی ہے

کریازوٹ:سفید رنگت والی لڑکیوں/لڑکوں کے چہرے پر دانے ہوں سورنیم:چربی اور گوشت کھانے کی وجہ سے اگر چہرے پر بہت زیادہ دانے نکل آئیں تو یہ دوا دیں

یوجینیا جمبوس: دانے نکلنے بعد سخت ہو جائیں تو اس دوا سے بہت جلد ٹھیک ہو جاتے ہیںایسڈ فاس:مشت زنی کے بعد نکلنے والے چہرے کے دانوں کی بہترین دوا ہے

گریفائٹس‘مگنیشیامیور‘سورنیم‘سپیا:خواتین میں اگر حیض آنے سے پہلے چہرے پر دانے نکلیںتویہ ادویات ضرور دیکھیں

سائکلیمن‘ڈلکامارا‘کالی بروم‘میگنیشیا میور‘سورنیم‘سینگونیریا:خواتین میں اگر حیض کے دوران چہرے پر کیل مہاسے نکلیں تو ان ادویات کے استعمال سے ٹھیک ہو جاتے ہیں

میڈ ورنیم:حیض کے فورابعد اگر خواتین کے چہرے پر دانے نکل آئیں تو یہ میڈورنیم سے ٹھیک ہو جائیں گے

کروٹیلس ہریڈس:خواتین میں حیض کا خون دیر سے آنے کی وجہ سے اگر چہرے پر دانے نکلیں تویہ دوا دیں

کاربوانیملس‘یوجینا جمبوس‘کالی بروم‘کالی آئیوڈیٹم‘سلفر:اگر چہرے پر ایک یا دو سخت ابھارنکل آئیں تو

بیلاڈونا‘سبائنا‘سارسپریلا‘سیپیا:خواتین میں دوران حمل ہونے والی ایکنی کیلئے بہت اچھا کام کرتی ہیں

پوڈوفائلم:سن بلوعت کی عمر میں جب لڑکیوں کو پہلا حیض شروع ہوتا ہے اگر ان کے چہروں پر دانے ایکنی نکل آئیں تو یہ دو بہت فائدہ دیتی ہے

کاربوانیملس:کوپیوا‘کالی بروم‘مرک سال سلیشیا‘تھوجا:ایسی ایکنی‘دانے جن کے بننے پر چہرے پر نشان چھوڑیں تو

انٹی مونیم کروڈ‘کاربویج‘لائیکوپوڈیم‘نکس وامیکا‘پلساٹیلا:چہرے داغ مہاسے اور دانے امراض معدہ کی بیماریوں کی وجہ سے ہوں تو یہ ادویات ضرور ان کا تھیک کردیں گی
--------------------------------------------------------------------------------

چہرے کے داغ‘کیل مہاسے دانے ختم کروانے کیلئے

الرحیم ہومیوکلینک سے دوائی بذریعہ پارسل آپ تک بھیجنے کی سہولت موجود ہے

Friday, September 18, 2009

Saturday, August 29, 2009

Anxiety and depression treatment in homeopathy


کم نوعیت کے بے چینی یا گھبراہٹ سے پیدا ہونے والے خلل دماغ کیلئے صرف نفسیاتی علاج ہی کافی ہے۔ عام طور پر ڈاکٹر ادویات اور نفسیاتی علاج کو ساتھ ساتھ ترجیح دیتے ہیں۔ اس بیماری سے شدید متاثرہ مریض کیلئے بہت سے مریض اس ملے جلے علاج کے اچھے نتائج ظاہر کرتے ہیں۔ بہ نسبت علیحدہ علیحدہ ادویاتی علاج یا نفسیاتی علاج کے کیونکہ بے چینی یا گھبراہٹ کے علاج کیلئے مختلف نوعیت کی ادویات کی بہت سی اقسام موجود ہیں اور ڈاکٹر اس بات کا صحیح اندازہ قبل از وقت نہیں کر سکتے کہ کون سی ادویات کسی خاص مریض کیلئے مددگار ثابت ہوں گی۔
اکثر دفعہ ڈاکٹر کو 6 سے آٹھ ہفتے تک مختلف ادویات آزمانا پڑتی ہیں‘
کسی ایک موثر دوا کے نتائج حاصل کرنے کیلئے۔ یہ علاج کی آزمایشوں کا یہ مطلب نہیں کہ مریض کی مدد نہیں کی جا رہی یا ڈاکٹر ناتجربہ کار ہے۔
اگرچہ بے چینی یا گھبراہٹ سے پیدا ہونے والا خلل دماغ تشخیص میں آسان نہیں لیکن کئی وجوہات ایسی ہوتی ہیں مریض کی شدید علامات میں مدد کرتی ہیں اور وہ مریض کیلئے اہم ہیں اور ان سے مدد لی جاتی ہے۔
بے چینی یا گھبراہٹ بذات خود کچھ نہیں ہوتی بلکہ یہ پڑھتی ہے خوف کے دوروں سے فوبیا سے اور وقفے وقفے سے ذہنی تناو سے۔ غیر علاج شدہ بے چینی اور گھبراہٹ سے پیدا ہونے والے خلل دماغ اکثر بعد میں ڈپریشن تشخیص ہوتے ہیں اور مریض کی تعلیمی قابلیت یا کام کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے گھبراہٹ یا بے چینی کے مریض الکوحل یا منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اپنی بیماری کی علامات کا علاج کرتے کرتے۔
اس کے علاوہ بچے اپنے ماں باپ سے بے سکونی کی عادت سیکھ جاتے ہیں۔ وہ بالغ لوگ جو کہ بے چینی سے پیدا ہونے والے خلل دماغ کا علاج کرا چکے ہوتے ہیں اپنی خاندان میں موجود ان لوگوں کی مدد کے قابل ہوتے ہیں جو اس بیماری سے متاثر ہوں۔ ان لوگوں کی نسبت جو کہ ابھی تک علاج نہ کرا سکے ہوں۔
علاج

ایکونائٹ

خوف کا حملہ انتہائی شدت کے ساتھ اچانک ہو جانا (خواہ وہ خوف موت ہی کا کیوں نہ ہو) اس دوا کی نشاندہی کرتا ہے۔ بے انتہا گھبراہٹ کی حالت جس کے ساتھ دل کی دھڑکن شدید ہو سکتی ہے سانس رک کر آنا اس کے ساتھ چہرہ سرخ ہو جانا۔
علامات

(1)اچانک شدید خوف کی وجہ سے بیماری کا حملہ
(2)بے چینی اور بے آرامی شکایات کے ساتھ
(3) خوف جو کہ نمایاں نہیں ہوتا
(4) جاگنے سے بیہوش ہو جانا یا چکر آنا
(5) اچانک بخار آ جانا جس میں ایک گال سرخ اور ایک پیلا ہو۔
(6) درد کی برداشت نہ ہونا
(7) درد سے پیشاب آنا بے چینی کے ساتھ
(8) درد جن کے ساتھ سن ہونا اور چبھن ہو
(9)آنکھ کا درد اور زخم
(10)شدید سردرد
(11) ناقابل برداشت پیاس

ارجینٹم نائٹریکم
یہ دوا اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کسی بڑے واقعے سے پہلے گھبراٹہ یا بے چینی شروع ہو جائے (مثال کے طور پر نوکری کیلئے انٹرویو‘ امتحان‘ عوام کے سامنے تقریر‘ شادی‘ معاشرتی وابستگی وغیرہ)
علامات

(1) جذباتی بے قاعدگی (2) خوف (3) بے چینی (4) مسلسل دماغی جھنجھلاہٹ بے باقاعدگی اور طوالت کے ساتھ (5) چکر آنا (6) اسہال (7)میٹھے اور نمک کی شدید خواہش‘ تیز ذائقوں کی خواہش (8) بے چین بے ہنگم سوچوں اور خیالات کے رحجان کا حامل
آرسینیکم البم
یہ دوا ان لوگوں کو تجویز کی جاتی ہے جو کہ اپنی صحت کے بارے میں بہت بے چین ہوتے ہیں اور ترتیب اور تحفظ کے بارے میں شدت پسند ہوتے ہیں۔ خوف کے دورے اکثرآدھی رات کو یا صبح کے ابتدائی گھنٹوں میں پڑتے ہیں۔
وہ شخص بے زاری محسوس کرسکتا ہے یہاں تک کہ وہ بے سکون اور تھکا ہوا رہے اور بے چینی سے حرکت کرتا رہے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتا رہے۔ ان لوگوں کو بے چینی کے سات بدہضمی اور دمہ کا حملہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ لوگ روایتی طور پر حساس ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں اور بہت صاف ستھرے ہوتے ہیں اور وہ ہر چیز کو قابو میں رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کرسکتے ہیں۔
علامات

(1) بے چین (2) بے چینی جس کے ساتھ نزلہ زکا م اور چھینکیں ہوں (3) دمہ آدھی رات کے بعد بدترین صورت میں (4) خوف‘ لیٹتے وقت گھٹن کا احساس ‘ خوفزدہ ہونا (5) بے چینی‘ بے سکونی (6) بے آرام ہونا (7) نیند کا آنا مگر مکمل طور پر نہ سو سکتا (8) بار بار پیاس محسوس کرنا (9) ہوا کی خواہش مگر ٹھنڈ سے حساس ہونا (10) کمزوری اور بیزاری (11) قے آنا اسہال یا اسہال کے بغیر کچھ کھانے اور پینے کے بعد۔
کلکیریا کاربونیکا
اس دوائی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ سرد مزاج ہوتے ہیں۔ ہلکی سی ٹھنڈ ان پر براہ راست اثر کرتی ہے۔ انہیں خود کو گرم رکھنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ ان میں میٹھے کی خواہش شدید ہوتی ہے اور جلد تھک جاتے ہیں یہ قابل بھروسہ ٹھوس لوگ ہوتے ہیں جو کہ جسمانی بیماری کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں یا بہت زیادہ کام کا اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں کسی نقصان سے ان کی سوچیں تھکن کے باعث منتشر اور پریشان ہوتی ہیں۔ پریشانیاں اور بری خبریں ان کو مشتعل کر دیتی ہیں ان کے اندر ایک خوف کسی تباہی یا نقصان کا بڑھتا جاتا ہے اپنے لئے یا دوسروں کیلئے بلندی کا خوف اور بند جگہوں کا خوف بھی عام ہیں۔
علامات

(1) پسینہ بڑھنا (2)رات کو پسینہ آنا (3) ٹھنڈے ہاتھ پاﺅں ہونا (4) چکرآنا (5) متلی ہونا (6) بہت زیادہ بھوک لگنا (7) چکنائی ناپسند کرنا (8) انڈوں کی شدید خواہش (9) روشنی سے آنکھوں کی حساسیت (10) ذرد چہرہ (11) سست ہاضمہ کے ساتھ زیادہ بھوک۔
جیلسیم
یہ دوا اس وقت تجویز کی جاتی ہے جس وقت آپ کو کمزوری کا احساس ہو کپکپاہٹ اور دماغی تھکن (جیسے خوف سے مفلوج ہو یاجانا) یہ اسوقت بھی کارآمد ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی متوقع واقعہ کی وجہ سے بے چینی محسوس کرے ۔ جیسے عوام کے سامنے آنے کا خوف یا انٹرویو وغیرہ۔ یا امتحان سے پہلے بے چینی‘ دندان سازکے پاس جانا یا اسی طرح کے دباﺅ والے واقعات ٹھنڈا ہونا پسینے آنا اسہال اور سردرد جو کہ عام طور پر پریشانی کی وجہ سے ہو۔ ہجوم کا خوف گرنے کا خوف یا یہ خوف کہ دل رک سکتا ہے جیلسیئم کی دوسری علامات ہیں۔
علامات

(1)گھبراہٹ (2) خوف (3) امتحان یا عوام کے سامنے کسی مظاہرے سے پہلے بے چینی (4) تھکن اور جسم میں درد (5) ہاتھ پاﺅں سر اور پلکوں کا بھاری پن (6) سردرد (7) چھونے سے دکھن کا احساس (8) گلا خراب ہونا (9) پیاس کم لگنا (10) چکر آنا‘ کپکپاہٹ‘ تھکن بیزاری۔
اگنیشیا امارا
ایک حساس شخص جو کہ غم سے بے چین ہوجاتا ہے‘ نقصان سے ناامیدی سے تنقید سے تنہائی سے (یا کسی بھی جذباتی دباﺅ سے)اس دوائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس دوا کا بنیادی جز جذباتی دباﺅ ہے خاص طور پر ناامیدی یا دکھ دوسری علامات ہیں دفاعی رویہ‘ مسلسل آہیں بھرنا یا مزاج کی تبدیلی ہے۔ یہ شخص غیر متوقع طور پر بہت زیادہ ہنسنا شروع کردیتا ہے یا رونا شروع کردیتا ہے۔
علامات

(1) قے ہونا (2) گلے میں کچھ پھنسنے کا احساس ہونا (3) بخار کے ساتھ ٹھنڈ لگنا (4) ٹھنڈ کے دوران پیاس لگنا (5) گرمی سے ٹھنڈ کا ختم ہونا یا آرام آنا (6) کمر یا پیٹ میں مروڑ کے ساتھ درد ہونا (7) سر میں درد اس احساس کے ساتھ جیسے کوئی سر میں کیل ٹھونک رہا ہو (8) بہت زیادہ حساس جلد (9) سوچوں میں گم رہنا (10) اداس (11) پریشان بیٹھے رہنا (12) آنسوﺅں سے لبریز (13) کسی صحبت کو ناپسند کرنا (14) اداسی (15) دکھ (16) جذباتی دباﺅ کی وجہ سے نیند نہ آنا (17) متلی کچھ کھانے کے بعد آرام آنا (18) کھانے سے بھوک تیز ہونا۔
کالی فاسفوریکم
یہ دوا اس وقت تجویز کی جاتی ہے جب کوئی شخص بیماری یا زیادہ کام سے بیزار ہوجائے اور بہت بے چینی محسوس کرے یا کسی صورتحال کا سامنا کرنے کا اہل نہ ہو۔ بہت زیادہ حساس ہو‘ عام آوازوں سے پریشان ہو سکتا ہو‘ بری خبر سننا یا دنیا میں ہونے والے واقعات کا خیال مسائل میں اضافہ کرسکتا ہو‘ بے خوابی اور بے توجہی پیدا ہوسکتی ہے‘ اعصابی خوف کا احساس بڑھ سکتا ہے۔ کھانا گرمی اور آرام اکثر سکون لاسکتا ہے۔
علامات

(1) بیزاری (2) بہت بے چینی اور کسی صورتحال سے نپٹنے کی نااہلیت (3) سردرد (4) بہت زیادہ حساس (5) عام آوازوں سے گھبرانا (6) کمر درد (7) اعصابی نظام ہضم میں خرابی۔
لائیکو پوڈیم
لائیکو پوڈیم کے مریض ایک اندرونی احساس یعنی خود کو آگے رکھنے کے احساس کو ظاہر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی وہ جو کچھ اپنے آپ کا ظاہر کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ خود ہوتے نہیں ہیں۔ وہ ذہنی دباﺅ سے بے چینی محسوس کرتے ہیں اور خوداعتمادی میں کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ اپنے بارے میں بہت باخبر ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے قریب ہونا پسند کرتے ہیں جنہیں وہ طاقتور سمجھیں وہ بہت زیادہ بے چینی محسوس کرسکتے ہیں اور ناکامی کا بہت زیادہ خوف اگر انہیں کوئی ذمہ داری دی جائے اکثر وہ کوئی کام شروع کریں تو عام طور پر اس کو اچھی طرح کرتے ہیں۔
علامات

(1) بغیر کسی ظاہر ی وجہ کے سرہلاتے ہیں(2) چہرے کے مختلف قسم کے تاثرات سے اظہار (3) گیس‘ قبض اور اسہال (4) نگلنے میں دکھن (5) بند جگہوں کا خوف (6) بے قراری (7) نظام ہضم کی خرابیاں گیس اور ڈکاریں (8) میٹھے مشروبات اور گرم خوراک کی خواہش رکھنا (9) رات کو کھانسنا (10) اکیلے رہنے کی خواہش (11) جاگنے پر جھنجھلاہٹ (12) جلد خوفزدہ ہونے کا رحجان (13) ناکامی کا خوف (14) دباﺅ میں آ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جانا۔(15)لائیکو کا مریض دوسرے لوگوں پر کم غصہ اتارتے ہیں اور گھر والوں پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ گھر والوں کے برعکس ‘باہر کے لوگوں سے بڑی پیار محبت سے باتیں کرتے ہیں
نیئرم میورٹیکم
اس دوا کے بنیادی مریض ذاتی طور پر اکیلے ہوتے ہیں مگر معاشرتی طور پر معاون ہوتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ گہرے جذبات خود تحفظی کا احساس اور شرم ان افراد کو محتاط‘ اکیلا اور تنہا بنا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ تنہا محسوس کرتے ہیں تو اپنے آپ ہر قسم کی معاشرتی صورتحال سے دور کرلیتے ہیں۔ اور یہ نہیں جانتے کہ کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔آسانی سے دکھی اور متاثر ہو جاتے ہیں وہ پریشان ہوسکتے بیزاری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ناخوشگوار احساسات اپنے اوپر طاری کرسکتے ہیں۔ اور خود کو تنہا کرسکتے ہیں۔ وہ دلاسہ اور تسلی سے انکار کرسکتے ہیں اگرچہ ان کو اس کی ضرورت ہو وہ اکثر ہمدرد سامع ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کے مسائل کے بند جگہوں کا خوف رات کو بے چینی (ڈاکو اور لٹیروں کے ڈر سے) جب اس دوا کی ضرورت ہو تو سردرد اور بے خوابی کا اکثر مشاہدہ کیا گیا ہے۔
علامات

(1) زبان خشک محسوس ہو (2) حلق کی جھلی خشک ہو (3) متلی (4) بے خوابی (5) بند جگہوں کا خوف (6) آدھے سر کا درد (7) قے ہونا (8) آنکھوں کے گرد درد (9) خشک اور نمکین خوراک کی خواہش (10) روہانسے مگر کوئی اس کو دیکھے نہ (11) تسلی ان کو برہم کردے (12) تنہائی سے ناراض (13) خوف‘ دکھ‘ غصہ (14) پریشان‘ کم ہمت‘ ٹوٹ پھوٹ کا شکار (15) ذہنی دباﺅ کا شکار۔
فاسفورس
یہ دوا اس وقت تجویز کی جاتی ہے جب مریض کھلے دل کا مالک‘ تخیلاتی طبعیت کا حامل‘ پرجوش آسانی سے حیران ہو جانے والا شدید اور بے بنیاد خوفوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ شدید بے چینی آسانی سے شروع ہو سکتی ہے کسی بھی چیز کے بار ے میں سوچنے سے‘ یہ لوگ دوسروں کیلئے پریشان اور حساس ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذات کو جذباتی نکتہ سے ہمدردی کے ساتھ خود کو بھلا لیتے ہیں اور حد سے گذر جاتے ہیں یہاں تک کہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ محبت اور یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اکثر بہتر محسوس کرتے ہیں۔ گفتگو سے یا کمر پر تھپکی دینے سے‘ چہرے کا آسانی سے سرخ ہو جانا‘ دھڑکنیں‘ پیاس‘ ٹھنڈے کی بہت زیادہ خواہش یا تازگی پیدا کرنے والی خوراک کی خواہش فاسفورس کی دوسری علامات ہیں۔
علامات

(1) بے چین (2) خوفزدہ (3) کمزور (4) آواز کی خرابی کا ہونا (5) تنگ بھاری چھاتی (6) خشک کھانسی (7) معدے‘ پیٹ اور کندھوں کے درمیان جلن والا درد (8) ٹھنڈے مشروبات کی پیاس (9) متلی (10) رات کو پسینے آنا۔
پلساٹیلا
وہ لوگ جنہیں عام طور پر اس دوا کی ضرورت ہوتی ہے اپنی بے چینی کا اظہار عدم تحفظ سے کرتے ہیں انہیں مسلسل سہارے اور تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ تنہا ہونے سے ڈرتے ہیں۔ یہ لوگ آسانی سے حوصلہ ہار دیتے ہیں‘ موڈی ہوتے ہیں‘ آنسوﺅں سے لبریز یہاں تک کہ بچگانہ حد تک جذباتی بہت زیادہ گرم ہونا یا کسی گرم کمرے میں رہنے سے بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ ہارمونی تبدیلیوں کی وجہ سے بے چینی (بلوغت‘ ماہانہ ایام یا ایام کا ختم ہونا) اس میں بھی پلٹیلا سے مدد لی جاتی ہے۔
علامات

(1) حساس (2) روہانسے (3) ہمدردی اور توجہ کے طالب (4) بدلتی ہوئی علامات اور موڈ (5) کھلی ہوا کی خواہش (6) گرمی سے حساسیت (7) کم پیاس کے ساتھ خشک منہ (8) اچھی غذا کے معدے کو بے قاعدہ کردے (9) مختلف خیالات کی وجہ سے بے خوابی کی شکایت (10) سر میں ٹھنڈک کے اثرات (11) کھانسی رات کو شدید ترین (12) ماہانہ ایام میں تاخیر کم اخراج کے ساتھ۔
سلیشیا
ان لوگوں کو تجویز کی جاتی ہے جو کہ قابل اور سنجیدہ ہوں اس کے ساتھ ساتھ پریشان ہوں شرمیلے ہوں اور وقتی طور پر اعتماد کھو دیتے ہیں ان کی بے چینی عروج پر ہو جب وہ لوگوں کا سامنا کریں انٹرویو‘امتحان یا نئی نوکری یا کام۔ پریشانی اور زیادہ کام ان کیلئے درد سر کا باعث ہو‘ مشکلات کا باعث ہو اور بیزاری کی حالت پیدا کرے زیادہ حساسیت اور خوف۔
علامات

(1) پریشانی (2) کام کی زیادتی (3) سردرد (4) مشکلات (5) بیزاری (6) غیر معمولی حساسیت (7) چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدید ردعمل اور بہت زیادہ توجہ (8) کم قوت برداشت (9) مسلسل نزلہ و زکام کا شکار‘ گلے کی خرابی یا دوسری بیماریاں۔

Monday, August 10, 2009

hahneman was muslim !ہانیمن مسلمان تھا!

ہومیوپتھی کا بانی ہانیمن مسلمان تھا
ڈاکٹر محمدامین
ہومیوپیتھی کا بانی ہانیمن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور بعض لوگ معلوم ہونے کے باوجود نہ صرف اس بات کو چھپاتے ہیں بلکہ اس کے خلاف پراپوگنڈہ بھی کرتے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جون 1835 میں ہانیمن نے اپنی دوسری بیوی میلانی ڈی ہرولیMelanie D Hervilly کے ہمراہ فرانس کی طرف ہجرت کی اوردوبارہ کبھی بھی اپنی جائے پیدائش یا وطن جرمنی دوبارہ نہیں گیا۔ اس بات کی اصل وجہ صدیوں تک پراسراریت کا شکار رہی۔ مغرب کے تنگ نظری پر مشتمل جذبات کی وجہ سے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اپنی ابتدائی تعلیمی زندگی میں اس نے غیرملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ 1777 تک وہ جرمن‘ لاطینی‘ یونانی‘ انگریزی اور ہسپانوی زبان بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ پیدائشی عالم ‘فلاسفرہانیمن نے ایک مرحلے پر عربی سیکھنا بھی شروع کی تاکہ مسلمانوں کے سنہری دور میں دنیائے طب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں جان سکے جس کا تعلق طب کی قدیم تاریخ سے جاملتا ہے۔ اس کے اقوال اور تحریریںعربی میں کم ہیں ،مگریہ اس کے عربی مطالعے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہےں۔ان تحریروں کوآرای ڈجن نے اکٹھا کیا ہے
صفحہ 579, 571 وغیرہ) ۔ہانیمن ،نبی آخر زمان اورعظیم فلاسفر حضرت محمد کی تعلیمات سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ان کی تعلیمات کے اس پر گہرے اثرات بھی تھے ۔ ایک وقت پر اس نے قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور مسلمان ہوگیا۔ یہ خبر جب اس کے دوستوں اور خاندان میں پھیلی تو وہ لوگ اس سے بہت ناراض ہوئے اور اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ان دھمکیوں کی وجہ سے اس نے اپنی عظیم الشان دریافت ہومیوپیتھی کو فروغ دینا بند کر دیا۔ تاہم اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دی اور اسی سال دو ماہ کے عرصہ میں فرانس کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’سیموئیل ‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا نام پر رکھا گیا تھامسلمان ہونے کے بعد اس نے اس نام کو استعمال کیا اوراس کے بعد پرانا نام کرسچن فریڈرچ کبھی استعمال نہ کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہانیمن نے اس نام کو بنی اسرائیل کے نبی کے نام پر رکھا تھایا کسی اور کے نام سے یا پھروہ خود اسلام کے لئے سچ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ہانیمن میوزیم میں جو پائس پیلس گریٹ آرمنڈ سٹریٹ لندن میں واقع ہے، اس کی کتابوںاور روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے استعمال شدہ کپڑوں میں قابل ذکر شے خوبصورتی سے تیار کی گئی جانماز ہے۔اس کے علاوہ ایک تسبیح ، ایک ترکی ٹوپی‘ بھی ہے ۔جائے نماز پر مسلسل استعمال کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔اس کی کتابوں کے ذخیرے میں قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ-1 ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے کبھی ”ٹرنٹی“ Trinityکی اصلاح استعمال نہیں کی جو کہ عیسائیت کی واضح علامت ہے انہوں نے ہمیشہ خالق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔-2 کتاب ”سیموئیل ہانیمن اس کی زندگی اور کام“ (مصنف رچرڈ رئیل جلد دوم صفحہ 389) میںایک خط نقل کیا گیا ہے۔ جس میں ہانیمن اپنے ایک مریض کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ،”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ایک کی دوستی میں پرسکون ہیں تو کیا ہمیں کسی اور مذہب کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کے علاوہ ہر چیز قابل رحم گھٹیا انسانی تصور ہے جو توہمات سے بھرا ہواہے، انسانیت کی سچی تباہی کے اسی صفحے پر ایک اور خط میں مندرجہ بالا کتاب کے ذیل میں تحریر ہے۔ ”میں تسلیم کرتا ہوں سچے شکر کے ساتھ ، بے پناہ رحم اس ایک دینے والے کا تمام بھلائیوں کے“ہانیمن کے مسلمان ہونے کے بارے ایک واضح ثبوت صفحہ نمبر 245 جریدہ (Allgem Anzieg Der Deutsehen) ( Voll XII -No6) پر ہے جو برٹش میوزیم میں رکھا ہے اور اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہانیمن کی وصیت میں درج ہدایات کے مطابق Madam Melanieنے ہانیمن کی تدفین کی رسومات میں صرف مسلمانوں کو مدعو کیا اور مسلمانوں کی تلاش کی خاطر اس نے ہانےمن کے انتقال کے 9 دن بعد تک انتظار کیا۔ ہانیمن کا انتقال 2 جولائی 1843ءکو ہوا لیکن اس کی تدفین 11 جولائی 1843 کو ماﺅنٹ میریٹری کے ایک گمنام قبرستان میں ہوئی۔

Monday, August 3, 2009

Now Homeopathy in Urdu ہومیوپیتھک اب اردو زبان میں

ہومیوپیتھی کے حوالے سے دیکھیں تو تمام نیا اور پرانا لڑیچر انگریزی زبان میں ہے جبکہ ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش‘نیپال اور بھارت میں بنگالی اور ہندی میں ان گنت ہومیوپیتھک کتابوں کے ترجمے ہو چکے ہیںبلکہ بے شمار ہومیوپیتھک کے سوفٹ ویر بھی مقامی زبانوں میں مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ ہومیوپیتھی کو سمجھ سکیں۔اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ لوگوں کیلئے یہ ویب سائٹ تیار کی گئی ہے جس میں صرف اور صرف ہومیوپیتھک کے متعلق ہر معلومات اردو میںمہیا کی جائیں گی۔آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ ہومیوپیتھک کے متعلق آپ لوگوں کے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ ہمیں ای میل کریں ہم آپ کی تحریر اور اور آپ کی بہترین ٹپس کو آپ کے نام کے ساتھ شائع کریں گے۔آپ کی تحریر اردو میں ہونا بہت ضروری ہے۔ہمارے پاس بہترین ہومیوپیتھک کے اردو ۔انگلش سافٹ وئیر بھی موجود ہیں جن کی قیمت انتہائی مناسب رکھی گئی ہے تاکہ ہم پاکستان کے اندر ہومیوپیتھک کو اعلیٰ مقام پر پہنچا سکیں شکریہ
آپ کے تعاون کا متمنی ہومیوپیتھک ڈاکٹر محمد امین
Email:homeopath_amin@yahoo.com

Al Rahim Homeo clinic and Research Center (ARHCRC)

الرحیم ہومیو کلینک اینڈ ریسرچ سنٹر
ہومیوپیتھی قدرتی اور روحانی طریقہ کار کے ذریعے علاج کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ہومیوپیتھی کی ادویات زیادہ موثر اور بے ضرر ہوتی ہیں۔یہ طریقہ علاج مغربی ممالک خاص کر برطانیہ اور امریکہ میں مقبول ہو رہا ہے۔پاکستان ہومیوپیتھی طریقہ علاج کا ایک بڑا مرکز ہے۔جہاں پر اس طریقہ علاج کو سیکھانے کیلئے مختلف ادارے قائم ہیں جنہیں حکومت پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔اس کے ساتھ بڑی تعداد میں ادویات فروخت کرنے والے مراکز ہیں۔حکومت پاکستان نے مختلف متعدی بیماریوں کی تدارک کیلئے اس طریقہ کار کی افادیت کا ذکر کیا ہےالرحیم ہومیو کلینک اینڈ ریسرچ سنٹر(اے۔آر۔ایچ۔آر۔سی)ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے سلسلے میں ملک کا ایک معروف فلاحی ادارہ ہے۔ڈاکٹر محمد امین جو ادارہ کے بانی بھی ہیں نے2003میں اس ادارہ کی لاہور میں داغ بیل ڈالی یہ ایک غیر منافع بخش اور فلاحی ادارہ ہے۔جس میں غریب اور مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔جہاں پر نا صرف لاہور بلکہ ملک کے دور دراز شہروں سے مریضوں کی بڑی تعداد علاج کیلئے آتی ہے۔اگرچہ روایتی طریقہ علاج میں مریض کا ڈاکٹر کے سامنے ہونا ضروری ہے تاہم ڈاکٹر محمد امین ذرائع ابلاغ کی جدید سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعے بھی علاج معالجہ کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔یہ ویب سائٹ اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ مریضوں اور تحقیق کرنے والوں کیلئے ڈاکٹر محمد امین سے رابطہ کرنے میں آسانی ہو۔
ہمار نصب العین
٭مختلف بیماریوں کے علاج کیلئے تحقیق کرنا
٭نئی اور پرانی پر تاثیر ادویات کے ذریعے علاج کرنا
٭ہیپاٹائٹس اور دیگر متعدی امراض کے متعلق شعور بیدار کرنا
٭خاندانی منصوبہ بندی کے مشورے دینا
٭بانجھ پن کا بغیر کسی مضر اثرات کے علاج کرنا
٭غریب اور مستحق مریضوں کا مفت علاج کرنا
فری مشورہ کیلئے
الرحیم ہومیوپیتھک کلینک
33-C,Tarran Wala bazar Bund Road Daroga
Wala farooqabad Lahore.Pakistan
فون نمبر- 0300-4243225-0331-4777300کلینک042-5023318

Sunday, August 2, 2009

Samuel Hahnemann Biography (1755-1843) By:Dr.Amin

ڈاکٹر محمد امین
فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن-سوانح عمری

علاج با لمثل یعنی ہومیوپیتھک کا جب بھی ذکر ہوگا تواس طریقہ علاج کے بانی ہانیمن کا تذکرہ بھی یقینا ہوگا۔انہوں نے سالہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد بنی نوع اانسان کی فلاح وبہبود کیلئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ آج ساری دینا میں یہ طریقہ علاج مقبول ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہانیمن کے طریقہ علاج کو دوسرا عظیم ترین تھیراپیوٹیک(امراض کی روک تھام) سسٹم قرار دیا ہے۔اسی عظیم ہانیمن کا یوم ولادت ہر سال10 اپریل کو جوش و خروش سے منایا جاتاہےہانیمن نے انیسویں صدی کے ابتداءمیں بہت شہرت پائی نہ صرف امریکہ میں جہاںآج بھی ہومیوپیتھک معالج ملتے ہیں بلکہ پورے یورپ میں ہومیو ادویات بڑی مقدار میں بلاروک ٹوک استعمال کی جارہی ہیں۔ ہانیمن نے بنی نوع انسان کی خدمت کےلئے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جس سے ہزاروں مریض اللہ کے حکم سے شفاپا رہے ہیں۔1707ءمیں کیمیا دان جان فرائیڈرک باٹگر اور طبیعات کے ماہر والٹر وان یورپ کے شہر شماس میں پہلی دفعہ چینی کے برتن بنانے کا آمیزہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح 1710ءکو جرمن ریاست سکیسونی میں چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ قائم ہوا۔ بہت سے رنگ روغن کرنے والی اس فیکٹری میں رکھے گئے ان میں ہومیوپیتھی کے بانی فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن کے والد کرسچن گوٹ فرائیڈ ہانمن بھی تھے۔ جو لاش ٹیڈ سے ہجرت کر کے میسن سکیسنی آئے۔ فریڈرک سموائیل ہانمن کی ماں جوانا کرشٹینا ایک سکیسونی کپتان کی بیٹی تھی۔ سات سالہ جنگ (63-1756 ) کے دوران چینی کے برتن بنانے والی فیکٹری تباہ ہو گئی۔ جس نے برتنوں پر رنگ و روغن کرنے والوں کو خاصا متاثر کیا۔ جن میں ہانمن کا خاندان بھی شامل تھا۔ اس طرح یہ خاندان انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزارنے لگا ہومیوپیتھی کے بانی غیر معمولی عالم فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن میسن سکیسونی میں 10 اپریل 1755ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کا قد''3-6' تھا خاندان کے لوگ اس کو پیار سے ہینی کہہ کر پکارتے تھے اپنے بہن بھائیوں میں آپ کا کا تیسرا نمبر تھا۔ خاندان کی غربت نے ہانیمن کی تعلیم پر خاصہ برا اثر ڈالا۔ اس کے باوجود ہانیمن کے والد نے اس کی تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ہائی سکول1775ایس ٹی افرا میسن‘میڈکل سکول کی تعلیم یونورسٹی آف لیپزنگ اور یونیورسٹی آف ویانا‘ایم ڈی1779ایرلانگنیونیورسٹی‘پروفیسر12-1811 لیپزگ یونیورسٹی۔اس کے والد نے ہانیمن کے دماغ کو اچھے اور قیمتی خیالات اور نظریات کی آماجگاہ بنایا۔ ابتدائی تعلیم اس نے اپنے والد اورمیسن سکیسونی کے سٹی سکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے ایس ٹی افرا کے پرنس لی سکول میں داخلہ لیا۔ وہ اکثر اپنے باب کو کام کرتا دیکھتا اور ہر چیز کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ ہانیمن نے لڑکپن سے ہی اپنی تعلیم کی طرف مکمل توجہ دینی شروع کی اور ابتدائی تعلیمی زندگی میں ہی کافی غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔ پرنس لی سکول سے امتحان پاس کرنے کے بعد ہانیمن نے اپنا الوداعی خطاب لاطینی زبان میں کیا۔ اور اپنے سکول کے استاد مولر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے اپنے بچے کی طرح سمجھا اور مجھے اپنے طریقے سے سیکھنے کی آزادی دی۔ 1775ءمیں ایک خیرخواہ جس کا نام گارنر تھا ہانیمن کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لیپزگ بلا لیا۔ اس وقت ہانیمن کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب تھے معاشی بچاﺅ کیلئے ہانیمن نے غیر ملکی ساتھی طلباءکو مختلف زبانوں سے متعلق اسباق پڑھانے شروع کر دیئے اور طب‘ کیمسٹری پر غیر ملکی تحقیقات کے تراجم کئے۔ 1777ءمیں لیپزگ میں چار جماعتیں پڑھنے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ یہاں عملی تربیت کیلئے کوئی مطب یا کلینک نہ تھا۔ جس سے طلبہ کو طب کے عملی پہلو کو سیکھنے کا موقع ملے تو ہانیمن وہاں سے ویانا آگئے۔ ویانا میں ہانیمن کو برون جوزف وان کورین (1814-1733) جو ملکہ ماربر تھریسا (1717- 1780) کا تاحیات طبیب اور ہسپتال کے سربراہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ برون جوزف وان کورین نے ہانیمن کی پوشیدہ صلاحیتوں کو جلد پہچان لیا اور اس کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اس کے ساتھ پرائیویٹ مریضوں کے معائنے کیلئے جایا کرے۔ ہانیمن اس کے شاگردوں میں واحد شخص تھا جسے یہ اعزاز حاصل ہوا۔ تاہم ایک مرتبہ پھر ہانیمن کو معاشی قوتوں نے روک دیا‘وہ اپنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اور کئی ماہ تک نوکری ڈھونڈتا رہا۔ 1780ءمیں ازلبن Eislebenکے نزدیک ہٹ شیٹیڈHettstedt چلا گیا اور اسی سال اس نے ایک طبی معالج کے طور پر اپنی پریکٹس Magdeburg کے نزدیک گومرن میں شروع کر دی۔ 1781ءکے موسم بہار سے اس نے ڈیساﺅ میں کام شروع کر دیا‘ نوجوان ڈاکٹر نے چلتی پھرتی پیشہ وارانہ زندگی شروع کر دی اور ایک دوا ساز کچلرKuchler کی سوتیلی بیٹی جوھاننا ہینریٹ Johanna Henriette سے شادی کر لی اس اس وقت ہانیمن کی عمر 27 سال تھی۔ اس شادی کے نتیجے میں ان کے ہاں 9 بچے پیدا ہوئے(بعض روایات میں11بچے ہیں) جن میں 7 بیٹیاں اور2بیٹے تھے۔پہلی بیٹی ہینرٹاجو1783میں پیدا ہوئی‘بیٹافریڈک 1786میں پیداہوا ‘1788میںبیٹی ویلیلمیناپیدا ہوئی‘1791میںایک اوربیٹی کیرولین‘1795میںبیٹی فریڈریکا‘پھر ایک بیٹا1798میںارنسٹ‘1805میں بیٹی کارلوٹ اور1806میں آخری بیٹی لوئسہ پیدا ہوئی۔ 1781ءمیں ہانیمن ڈاکٹر آف میڈیسن بن گیا اور اس نے روایتی ایلوپیتھک ادویات پر کام شروع کر دیا۔ شادی کے ابتدائی سالوں میں اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اس نے پریکٹس شروع کر دی تھی ساتھ ہی سائنسی اور طبی کتب کا ترجمہ بھی کرتا رہا۔ یہ وقت ڈاکٹر ہانیمن نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شدید غربت میں گزارا وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا۔ جس کو ایک پردے کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا دن میں اپنی تحقیق پر کام کرتے اور دوسری رات جاگ کر مختلف تصانیف کا ترجمہ کرتا۔ ہانیمن اس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کرتا رہا۔ جلد ہی ہانیمن کا اس زمانے کے طبی طریقے کار سے اعتقاد ختم ہو گیا اور آپ 1783ءمیں ڈریسڈن چلے گئے جہاں آپ نے فرانزک میڈیسن forensic medicine کے شعبے کیلئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس کوعوامی مقبولیت پھر بھی حاصل نہ ہو سکی۔ 1784ء ”جلدی امراض“پر ایک کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ زخموں کے علاج اور ہڈیوں کو گلنے سڑنے سے کیسے بچایا جائے ۔ 1786ءمیں ہانیمن نے سنکھیا کے زہر کے متعلق ایک کتاب لکھی جیسے اس دور میں کافی پذیرائی ملی اور 1787ءمیں شراب کی جعلسازی کو جانچنے کا طریقہ ایجاد کیا اس کا یہ تجربہ مقبولیت حاصل کر گیا۔ 1789ءہانیمن نے ایک مرتبہ پھر لیپزگ کا رخ کیا اور جہاں اس نے حل پذیر پارہ تیار کیا جو جنسی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہوا۔ اس وقت تک وہ جانا پہچانا کیمیا دان بن گیا۔ ہانیمن کی ایلوپیتھک پریکٹس کا دورانیہ تقریباً 10 سالوں پر محیط تھا۔ اس دوران اس نے ہر ممکن حد تک ایلوپیتھک ادویات کا کم استعمال کرتے ہوئے ورزش اور مناسب خوراک کا استعمال کرایا اور مریض کو اضافی تکالیف سے بچایا۔ 1790ءمیں اس نے اپنی ایلوپیتھک پریکٹس کو مکمل طور ختم کر دیا اور خود کو کیمیا اور تصانیف کیلئے وقف کر دیا۔ (Haehl ` Reprint1992 ` Vol1- p64) اسی دوران اس نے ریڈن برگ کے طبیب ولیم کولن کے ایک میٹریا میڈیکل کے ترجمہ کے دوران پڑھا کہ دوا سنکونا (چائنہ یا کونین) ملیریا بخار کے علاج میں مفید ہے۔ کیونکہ یہ دوا ذائقے میں کڑوی اور جسم کی بافتوں کو کھولنے والی ہے اور اس کا معدہ پر خاصا اثر ہے۔ ہانیمن اس بیان کی سچائی سے مطمئن نہ ہوا اس طرح تو تمام کڑوے اور سکڑنے والے مادے ملیریا کے علاج میں موثر ہونے چاہئیں لیکن وہ نہ تھے۔ لہٰذا ہانیمن نے سنکونا کے اثرات کا خود پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دریافت کیا کو سنکونا کھانے سے جو اثرات یا علامات اس کے اندر پیدا ہوئیں وہ ملیریا جیسی تھیں۔ دوائی چھوڑنے کے چار روز بعد یہ علامات خود بخود ختم ہو گئیں یہ پہلا ہومیوپیتھی ثبوت تھا اور یہ ہومیوپیتھی کے پہلے قانون کی دریافت Similia Similibus Curentur یا Like Cure like علاج بالمثل ہانیمن نے اپنی اس نئی دریافت کو ہومیوپیتھی کا نام دیا ہومیو (ایک جیسا) پیتھی (بیماری) مزیدنتائج کیلئے اس نے اس وقت کی دوسری ادویات تجربات شروع کردئے اور بیلاڈونا‘ ایکونائیٹ‘ اور کیمفر اور ان سے پیدا ہونے والی علامات کا مطالبہ کیا ان تجربات کے نتائج کی روشنی میں نئے طبی اصولوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ۔ہانیمن کی اکیلی اور کم سے کم دوا سے علاج کا طریقہ دوا سازوں کی طاقتور تنظیموں کیلئے خطرہ بن گیا اور سب اس کے مخالف ہوگئے۔ ہانیمن کی زندگی کا یہ دور دوبارہ تبدیل ہونے والا تھا 1792ءسے 1805 تک اس نے اپنے بڑھتے ہوئے خاندان کے ساتھ دس مرتبہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی۔ 1794ءمیں مولسلیبن Molshlebenسے پائیرمونٹ Pyrmontگیا اور اسی سال گوٹنجن پہنچا۔ 1799ءیا 1800ءہمبرگ الٹونا گیا یہاں ہانیمن نے مزاحیہ ڈرامہ نگار ویسل کا علاج کیا جو تقریباً 1786ءسے پاگل پن کا شکار تھا۔ 1796ءمیں ہانمن اپنا طبی نظریہ پیش کیا جو 1796ءکو ہیوف لینڈ کے جریدے میں شائع ہوا جس میں اس نے اپنے کونین سے متعلق تجربات کے بارے میں اظہارخیال کیا کہ ادویات زیادہ طاقتور ہیں جو کہ صحت مند جسم میں شدید بیماری پیدا کر دیتی ہیں۔ تاہم وہ اس نظریہ تک پہنچنے میں کہ ایک جیسی چیز کا علاج اس جیسی چیز ہی سے ہے ابھی بہت دور تھا۔ معالجین اور فلسفیوں نے اس نظریہ کو وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال میں جدت دی تھی۔ ہانمن نے افلاطون سے اپنا ادھار چکادیا تھا۔ اس نظریہ کی ترویج یونان میں۰۹۴قبل مسیح اور افلاطون نے۰۶۴ قبل مسیح میں کی تھی۔اس کے حوالے ہندوستان کے طبی نصاب میں ملتے ہیں۔اس کے علاوہ قدیم چینی طبی نصاب میں بھی اس ک ے حوالے موجودہیں۔ افلاطون کا خیال تھا کہ علاج کے دو ممکنہ طریقے ہیں۔ متضاد سے یاپھر ایک جیسی اشیائسے (پہلی صدی عیسوی روم) رومی طبی مصنفین نے اس نظریہ کو اپنانے کے ساتھ اس کی ترویج بھی کی۔ متضاد اشیاءسے علاج کے طرےقے کو ایک صدی کے بعد گیلن نے اپنایا (1493-1541ءابتدائی ادویہ میں قوت حیات کی مرکزیت بیان کرنے والا عظیم مجدد طبیب پیرا سلیس تھا جوہانیمن کے علاج کے تخیلاتی خاکے کے قریب ترین تھا۔1801ءمیں ہانیمن نے اپنے ادویات کی مقدار کو کم کرنے کے نظریے کو وسعت دی کہ ادویات کی طاقت کو کم کرنے سے ایک طاقت کے طور پر کام کرتی ہیں۔ 1805ءمیں ہانیمن نے 27 ادویہ کے اپنے اوپر تجربات ایک لاطینی کتاب میں بیان کئے۔ اس کے نظریے کے مطابق ان ادویات کی آزمائش ایک صحت مند جسم پر کی جاسکتی ہے۔ اس نے سارے تجربات خو پر کئے اور 1807ءمیں اس نے اپنے طبی نظام کو ہومیوپیتھی کا نام دیا۔1808ءمیں ہانیمن نے ایک مشہور معالج کرسٹوف ولیلم ہوف لینڈ Christoph Wilhelm Hufeland کو ایک خط لکھا کہ میں طب کے عام طریقہ علاج پر 18 سال سے عمل پیرا رہا ہوں اور یہ بہت سی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے کیونکہ یہ طریقہ علاج نئی بیماری کو پیچیدہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ یہ انتہائی بے ترتیب ہے۔ہانیمن کی ہومیوپیتھی تعلیمات کا مکمل خلاصہ ہانیمن کی کتاب آرگنین میں 1810ءمیں Dresdenڈریسڈن میں منظرعام پر آیا۔ ہانیمن نے اس میں ایک جامع نظریاتی نظام پیش کیا ہے جو کہ 291 پیراگراف پر مشتمل ہے۔ ہانیمن کے انسان کو مکمل طور پر فوقیت دی اور اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پر زور دیا۔ اسی سال جب نپولین نے لیپزگ پر حملہ کیا تو تقریباً 80,000 لوگ مارے گئے ہانیمن نے جنگ میں بچ جانے والے اور ٹائیفائیڈ کی وباءسے متاثر ہونے والوں کا علاج کیا جو ہومیوپیتھی کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوا۔ ہانیمن نے لیپزگ یونیورسٹی میں پڑھایا جہاں اکثر اس کے لیکچر تندو تیز حملوں میں روایتیادویات Conventional Medicine کے خطرناک طریقہ علاج کے خلاف تبدیل ہوجائے تو اس کے طالبعلموں نے ہانیمن کا نام ”بڑھتا ہوا طوفان“ رکھ دیا۔مریض کے بارے میں ہانیمن کی تحقیق انفرادی طور پر ہوا کرتی تھی ہر بیماری کو وہ انفرادی طور پر دیکھا کرتا تھا۔ 1799ءمیںاس نے مریضوں کے باقاعدہ ریکارڈ لکھنے شروع کئے۔ ہومیوپیتھی پر اس کا دوسرا بڑا تحقیقی کام چھ جلدوں پر مشتمل ”میٹریا میڈیکا پیورا“ 1811ءاور 1821ءکے درمیان شائع ہوا۔ جس میں 66 ادویات شامل کی گئی تھیںاس کو ”خاص ادویہ سازی کا نظریہ“ کا نام دیا گیا ۔ اس میں اس نے ہر دوائی کا اثر بیان کیاگیا ہے۔1821-1811ءکے دوران ہانیمن لیپزگ میں اپنی پریکٹس میں مصروف ہوگیاتھا 1812ء اسے یونیورسٹی میں استاد کا عہدہ دیا گیا۔ اس طرح وہ اپنے نظریہ ہومیوپیتھی کو طلباءتک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔1813ءمیں لیپزگ کے نزدیک جنگ میں بخار کی وباءپھوٹ پڑی اور 1/3 مریض اس وباءسے دوسرے طریقہ علاج سے مر گئے جبکہ ہانیمن کے پاس 183 مریض تھے جن میں سے صرف ایک بوڑھی عورت مری۔ہومیوپیتھی دوا کی کم مقدار پر بڑھتے ہوئے اچھے اثرات نے روایتی طبی حلقوں میں اس سے دشمنی کو جنم دیا خصوصادوا سازوں نے‘ کیونکہ ہانیمن اس بات پر زور دیا تھاکہ معالج کو دوا خود تیار کرنی چاہئے۔ ہانمن نے دلبرداشتہ ہوکر لیپزگ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا 1821ءمیں جب ہانیمن کی عمر 66 برس تھی تو ڈیوک آف کوتھن نے ہانیمن کو کوتھن آنے کی دعوت دی۔ جیسے اس نے قبول کر لیا ڈیوک نے اس کوتاحیات ادویات تیار کرنے کی اجازت دے دی1828ءمیں ہانیمن نے اپنے چار جلدوں پر مشتمل کام کی پہلی تین جلدوں کو شائع کیا۔ اس میں اس نے پرانے امراض سے متعلق نظریہ کو پیش کیا۔ا1829ءمیں ہانیمن نے اپنی ڈاکٹری کی ڈگری کی پچاسویں سالگرہ منائی۔ 400 معالجین نے اس کے منانے کے لاطینی پروگرام پر دستخط کئے اور اسی سال جرمنی ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی تنظیم بنائی گئی۔ 1831ءمیں ہانیمن نے ایک کتاب ”ایلوپیتھی ہر قسم کے بیمار لوگوں کےلئے انتباہ“ شائع کی ۔ 1831-32ءمیں جب پورے یورپ کے ایک بڑے حصہ میں ہیضے کی وباءپھوٹ پڑی تو روایتی ادویات بے کار ثابت ہو رہی تھیں تو ہانیمن نے ہومیوپیتھی طریقہ علاج اور ہیضے کے بارے میں ضمیمہ شائع کیا ان کی تجاویز اور احتیاطی تدابیرسے بہت سے مریضوںکوشفاءملی۔ جس کی شرح علاج میں 96% تھا۔ بہ نسبت ایلوپیتھی کے 41% شرح کے اس کامیابی کی وجہ سے 1832ءمیں لیپزگ میں پہلے ہومیوپیتھک ہسپتال کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے ایک جستجوکا دروازہ کھول دیا۔1819ءمیں آسٹریا کے علاقہ جات میں ہومیوپیتھک پریکٹس پر قانونی طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ -32 1831ءمیں ہیضے کی وباءمیں بہترین کام کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شفایاب کرنے کے صلہ میں 1836ءمیں یہ قانون منسوخ کر دیا گےا۔1832ءمیں ہانیمن نے سوسائٹی آف ہومیوپیتھی کو منظم کیا اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج امراءمیں عام ہوگیا۔ہانیمن کی پہلی بیوی ہینرائیٹ Henriette 1827ءمیں انتقال کر گئی تھی۔ 8 اکتوبر 1834ءکو 33 سالہ میلانی ڈی ہروالی گوئیر نے اپنے چہرے کے درد کر علاج کےلئے رجوع کیا۔ اس وقت ہانیمن کی عمر تقریباً 79 سال تھی۔ وہ ہانیمن کے علاج سے بہت متاثر ہوئیں اور 18 جنوری 1835ءمیں جب ہانیمن کی عمر تقریباً 80 سال کی تھی سے شادی کرلی اور ہانیمن 14 جون کو پیرس چلا گیا۔ جس کی وضاحت ایک ہومیوپیتھی جریدہ نے 13 جولائی 1935ءکو شائع کی۔وہاں کی ہومیوپیتھک سوسائٹی نے ہانیمن کا بہت اچھا استقبال کیا اور اس کو اپنی پریکٹس منظم کرنے میں اس کی بہت مدد کی اور وہاں ہانیمن فرنچ ہومیوپیتھی سوسائٹی کا چیئرمین بن گیا۔ اپنی چھیاسیویں سالگرہ پر اس کو اس کے آبائی شہر میسن کے معزز شہری کا اعزاز دیا گیا۔ 23 مارچ 1843ءکو ہانیمن سانس کے مرض میں مبتلا ہو کر بیمار ہوگیا اور اپنی طاقت کھونے لگا۔ سیموئیل فرائیڈرک ہانیمن 2 جولائی 1843ءکو 88 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ہومیوپیتھی کا بانی ہانیمن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور بعض لوگ معلوم ہونے کے باوجود نہ صرف اس بات کو چھپاتے ہیں بلکہ اس کے خلاف پراپوگنڈہ بھی کرتے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جون 1835 میں ہانیمن نے اپنی دوسری بیوی میلانی ڈی ہرولیMelanie D Hervilly کے ہمراہ فرانس کی طرف ہجرت کی اوردوبارہ کبھی بھی اپنی جائے پیدائش یا وطن جرمنی دوبارہ نہیں گیا۔ اس بات کی اصل وجہ صدیوں تک پراسراریت کا شکار رہی۔ مغرب کے تنگ نظری پر مشتمل جذبات کی وجہ سے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اپنی ابتدائی تعلیمی زندگی میں اس نے غیرملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ 1777 تک وہ جرمن‘ لاطینی‘ یونانی‘ انگریزی اور ہسپانوی زبان بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ پیدائشی عالم ‘فلاسفرہانیمن نے ایک مرحلے پر عربی سیکھنا بھی شروع کی تاکہ مسلمانوں کے سنہری دور میں دنیائے طب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں جان سکے جس کا تعلق طب کی قدیم تاریخ سے جاملتا ہے۔ اس کے اقوال اور تحریریںعربی میں کم ہیں ،مگریہ اس کے عربی مطالعے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہےں۔ان تحریروں کوآرای ڈجنR.E. Dudgeon نے اکٹھا کیا ہے (R.E.Dudgeon صفحہ 579, 571 وغیرہ) ۔ہانیمن ،نبی آخر زمان اورعظیم فلاسفر حضرت محمدﷺ کی تعلیمات سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ان کی تعلیمات کے اس پر گہرے اثرات بھی تھے ۔ ایک وقت پر اس نے قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور مسلمان ہوگیا۔ یہ خبر جب اس کے دوستوں اور خاندان میں پھیلی تو وہ لوگ اس سے بہت ناراض ہوئے اور اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ان دھمکیوں کی وجہ سے اس نے اپنی عظیم الشان دریافت ہومیوپیتھی کو فروغ دینا بند کر دیا۔ تاہم اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دی اور اسی سال دو ماہ کے عرصہ میں فرانس کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’سیموئیل ‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا نام پر رکھا گیا تھامسلمان ہونے کے بعد اس نے اس نام کو استعمال کیا اوراس کے بعد پرانا نام کرسچن فریڈرچ کبھی استعمال نہ کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہانیمن نے اس نام کو بنی اسرائیل کے نبی کے نام پر رکھا تھایا کسی اور کے نام سے یا پھروہ خود اسلام کے لئے سچ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ہانیمن میوزیم میں جو پائس پیلس گریٹ آرمنڈ سٹریٹ لندن WBUC-Uk میں واقع ہے، اس کی کتابوںاور روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے استعمال شدہ کپڑوں میں قابل ذکر شے خوبصورتی سے تیار کی گئی جانماز ہے۔اس کے علاوہ ایک تسبیح ، ایک ترکی ٹوپی‘ بھی ہے ۔جائے نماز پر مسلسل استعمال کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔اس کی کتابوں کے ذخیرے میں قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ-1 ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے کبھی ”ٹرنٹی“ Trinityکی اصلاح استعمال نہیں کی جو کہ عیسائیت کی واضح علامت ہے انہوں نے ہمیشہ خالق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔-2 کتاب ”سیموئیل ہانیمن اس کی زندگی اور کام“ (مصنف رچرڈ رئیل جلد دوم صفحہ 389) میںایک خط نقل کیا گیا ہے۔ جس میں ہانیمن اپنے ایک مریض کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ،”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ایک کی دوستی میں پرسکون ہیں تو کیا ہمیں کسی اور مذہب کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کے علاوہ ہر چیز قابل رحم گھٹیا انسانی تصور ہے جو توہمات سے بھرا ہواہے، انسانیت کی سچی تباہی کے اسی صفحے پر ایک اور خط میں مندرجہ بالا کتاب کے ذیل میں تحریر ہے۔ ”میں تسلیم کرتا ہوں سچے شکر کے ساتھ ، بے پناہ رحم اس ایک دینے والے کا تمام بھلائیوں کے“ہانیمن کے مسلمان ہونے کے بارے ایک واضح ثبوت صفحہ نمبر 245 جریدہ (Allgem Anzieg Der Deutsehen) (Vol XII NO 6) پر ہے جو برٹش میوزیم میں رکھا ہے اور اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہانیمن کی وصیت میں درج ہدایات کے مطابق Madam Melanieنے ہانیمن کی تدفین کی رسومات میں صرف مسلمانوں کو مدعو کیا اور مسلمانوں کی تلاش کی خاطر اس نے ہانےمن کے انتقال کے 9 دن بعد تک انتظار کیا۔ ہانیمن کا انتقال 2 جولائی 1843ءکو ہوا لیکن اس کی تدفین 11 جولائی 1843 کو ماﺅنٹ میریٹری کے ایک گمنام قبرستان میں ہوئی۔ 1898ءمیں اس کی لاش کو پیری لاشیز کے قبرستان میں لایا گیا جہاں 1900ءمیں اس کی قبر پر ایک یادگار بنا دی گئی اور اسی قسم کی ایک یادگار 1851ءمیںلیپزگ میں بنائی گئی۔ہانیمن کے معمولاتگرمیوں کے دنوں میں عموماً صبح 6 بجے سے پہلے سردیوں میں 7 بجے سے پہلےبیدار ہو جاتا تھا۔ صبح ناشتے میں دو گلاس تازہ دودھ بغیر ابلا ہوا کیونکہ صبح نہار منہ دودھ معدہ کی تمام ترش رطوبتوں کو زیادہ مقدار میں پیدا ہونے سے روکتا ہے اور تیزابیت پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس کے بعد آپ باغ میں کافی دیر تک سیر کرتے اور سیر کرنے کے بعد اپنے کلینک میں چلا جاتا اور خط و کتابت شروع کردیتا اور تقریباً 10 بجے تک مریض آنے شروع ہوجاتے۔اس دوران اس کی بیٹی تھوڑے سے موسمی پھل لاتی جو ہانمن اسی وقت کھا لیتے۔(دس بجے موسمی پھل الکین سالٹ اور وٹامن اور انتڑیوں کو طاقتور بناتے ہیں) اور بارہ بجے دوپہر کا کھانا کھانا جس میں گوشت‘ سبزیاں وغیرہ شامل ہوتی تھی۔ آپ پھول گوبھی کو شوق سے کھاتے تھے۔ آپ مربہ جات‘ میٹھی چیزیں اور کیک بہت پسند کرتے تھے۔ آلو پسند نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھار انگوری شراب وہ بھی مہمانوں کے ساتھ ہی پیتے تھے اور دوپہر کے کھانے کے بعد ایک گھنٹہ کےلئے سو جایا کرتے تھے۔گوشت اور سبزیاں دوپہر کو کھانا بہت اچھی غذا ہے جو ایک دوسرے کے مضر اثرات کو دور کر دیتے ہیں اور ان کی تاثیر میں اعتدال رہتا ہے اور دوپہر کو غذا کے بعد ایک گھنٹہ سونا غذا کو ہضم کرنے میں بہترین ہے اور اس کے بعد مریضوں میں مشغول ہوجاتے اور شام سات بجے تک یہ سلسلہ چلتا رات کی غذا میں صرف دودھ وہ بھی سردیوں میں پیتے اور گرمی کے موسم میں صرف بیئر اور ڈبل روٹی وغیرہ کا ٹوسٹ کھا لیتے۔رات کو صرف دودھ پینا اور گرمیوں میں بیئر اور ڈبل روٹی کھانا گرم موسم میں باآسانی ہضم ہوجاتے ہیں۔