ہومیوپتھی کا بانی ہانیمن مسلمان تھا
ڈاکٹر محمدامین
ہومیوپیتھی کا بانی ہانیمن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور بعض لوگ معلوم ہونے کے باوجود نہ صرف اس بات کو چھپاتے ہیں بلکہ اس کے خلاف پراپوگنڈہ بھی کرتے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جون 1835 میں ہانیمن نے اپنی دوسری بیوی میلانی ڈی ہرولیMelanie D Hervilly کے ہمراہ فرانس کی طرف ہجرت کی اوردوبارہ کبھی بھی اپنی جائے پیدائش یا وطن جرمنی دوبارہ نہیں گیا۔ اس بات کی اصل وجہ صدیوں تک پراسراریت کا شکار رہی۔ مغرب کے تنگ نظری پر مشتمل جذبات کی وجہ سے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اپنی ابتدائی تعلیمی زندگی میں اس نے غیرملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ 1777 تک وہ جرمن‘ لاطینی‘ یونانی‘ انگریزی اور ہسپانوی زبان بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ پیدائشی عالم ‘فلاسفرہانیمن نے ایک مرحلے پر عربی سیکھنا بھی شروع کی تاکہ مسلمانوں کے سنہری دور میں دنیائے طب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں جان سکے جس کا تعلق طب کی قدیم تاریخ سے جاملتا ہے۔ اس کے اقوال اور تحریریںعربی میں کم ہیں ،مگریہ اس کے عربی مطالعے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہےں۔ان تحریروں کوآرای ڈجن نے اکٹھا کیا ہے
صفحہ 579, 571 وغیرہ) ۔ہانیمن ،نبی آخر زمان اورعظیم فلاسفر حضرت محمد کی تعلیمات سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ان کی تعلیمات کے اس پر گہرے اثرات بھی تھے ۔ ایک وقت پر اس نے قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور مسلمان ہوگیا۔ یہ خبر جب اس کے دوستوں اور خاندان میں پھیلی تو وہ لوگ اس سے بہت ناراض ہوئے اور اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ان دھمکیوں کی وجہ سے اس نے اپنی عظیم الشان دریافت ہومیوپیتھی کو فروغ دینا بند کر دیا۔ تاہم اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دی اور اسی سال دو ماہ کے عرصہ میں فرانس کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’سیموئیل ‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا نام پر رکھا گیا تھامسلمان ہونے کے بعد اس نے اس نام کو استعمال کیا اوراس کے بعد پرانا نام کرسچن فریڈرچ کبھی استعمال نہ کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہانیمن نے اس نام کو بنی اسرائیل کے نبی کے نام پر رکھا تھایا کسی اور کے نام سے یا پھروہ خود اسلام کے لئے سچ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ہانیمن میوزیم میں جو پائس پیلس گریٹ آرمنڈ سٹریٹ لندن میں واقع ہے، اس کی کتابوںاور روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے استعمال شدہ کپڑوں میں قابل ذکر شے خوبصورتی سے تیار کی گئی جانماز ہے۔اس کے علاوہ ایک تسبیح ، ایک ترکی ٹوپی‘ بھی ہے ۔جائے نماز پر مسلسل استعمال کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔اس کی کتابوں کے ذخیرے میں قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ-1 ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے کبھی ”ٹرنٹی“ Trinityکی اصلاح استعمال نہیں کی جو کہ عیسائیت کی واضح علامت ہے انہوں نے ہمیشہ خالق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔-2 کتاب ”سیموئیل ہانیمن اس کی زندگی اور کام“ (مصنف رچرڈ رئیل جلد دوم صفحہ 389) میںایک خط نقل کیا گیا ہے۔ جس میں ہانیمن اپنے ایک مریض کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ،”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ایک کی دوستی میں پرسکون ہیں تو کیا ہمیں کسی اور مذہب کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کے علاوہ ہر چیز قابل رحم گھٹیا انسانی تصور ہے جو توہمات سے بھرا ہواہے، انسانیت کی سچی تباہی کے اسی صفحے پر ایک اور خط میں مندرجہ بالا کتاب کے ذیل میں تحریر ہے۔ ”میں تسلیم کرتا ہوں سچے شکر کے ساتھ ، بے پناہ رحم اس ایک دینے والے کا تمام بھلائیوں کے“ہانیمن کے مسلمان ہونے کے بارے ایک واضح ثبوت صفحہ نمبر 245 جریدہ (Allgem Anzieg Der Deutsehen) ( Voll XII -No6) پر ہے جو برٹش میوزیم میں رکھا ہے اور اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہانیمن کی وصیت میں درج ہدایات کے مطابق Madam Melanieنے ہانیمن کی تدفین کی رسومات میں صرف مسلمانوں کو مدعو کیا اور مسلمانوں کی تلاش کی خاطر اس نے ہانےمن کے انتقال کے 9 دن بعد تک انتظار کیا۔ ہانیمن کا انتقال 2 جولائی 1843ءکو ہوا لیکن اس کی تدفین 11 جولائی 1843 کو ماﺅنٹ میریٹری کے ایک گمنام قبرستان میں ہوئی۔
صفحہ 579, 571 وغیرہ) ۔ہانیمن ،نبی آخر زمان اورعظیم فلاسفر حضرت محمد کی تعلیمات سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ان کی تعلیمات کے اس پر گہرے اثرات بھی تھے ۔ ایک وقت پر اس نے قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور مسلمان ہوگیا۔ یہ خبر جب اس کے دوستوں اور خاندان میں پھیلی تو وہ لوگ اس سے بہت ناراض ہوئے اور اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ان دھمکیوں کی وجہ سے اس نے اپنی عظیم الشان دریافت ہومیوپیتھی کو فروغ دینا بند کر دیا۔ تاہم اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دی اور اسی سال دو ماہ کے عرصہ میں فرانس کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’سیموئیل ‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا نام پر رکھا گیا تھامسلمان ہونے کے بعد اس نے اس نام کو استعمال کیا اوراس کے بعد پرانا نام کرسچن فریڈرچ کبھی استعمال نہ کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہانیمن نے اس نام کو بنی اسرائیل کے نبی کے نام پر رکھا تھایا کسی اور کے نام سے یا پھروہ خود اسلام کے لئے سچ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ہانیمن میوزیم میں جو پائس پیلس گریٹ آرمنڈ سٹریٹ لندن میں واقع ہے، اس کی کتابوںاور روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے استعمال شدہ کپڑوں میں قابل ذکر شے خوبصورتی سے تیار کی گئی جانماز ہے۔اس کے علاوہ ایک تسبیح ، ایک ترکی ٹوپی‘ بھی ہے ۔جائے نماز پر مسلسل استعمال کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔اس کی کتابوں کے ذخیرے میں قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ-1 ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے کبھی ”ٹرنٹی“ Trinityکی اصلاح استعمال نہیں کی جو کہ عیسائیت کی واضح علامت ہے انہوں نے ہمیشہ خالق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔-2 کتاب ”سیموئیل ہانیمن اس کی زندگی اور کام“ (مصنف رچرڈ رئیل جلد دوم صفحہ 389) میںایک خط نقل کیا گیا ہے۔ جس میں ہانیمن اپنے ایک مریض کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ،”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ایک کی دوستی میں پرسکون ہیں تو کیا ہمیں کسی اور مذہب کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کے علاوہ ہر چیز قابل رحم گھٹیا انسانی تصور ہے جو توہمات سے بھرا ہواہے، انسانیت کی سچی تباہی کے اسی صفحے پر ایک اور خط میں مندرجہ بالا کتاب کے ذیل میں تحریر ہے۔ ”میں تسلیم کرتا ہوں سچے شکر کے ساتھ ، بے پناہ رحم اس ایک دینے والے کا تمام بھلائیوں کے“ہانیمن کے مسلمان ہونے کے بارے ایک واضح ثبوت صفحہ نمبر 245 جریدہ (Allgem Anzieg Der Deutsehen) ( Voll XII -No6) پر ہے جو برٹش میوزیم میں رکھا ہے اور اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہانیمن کی وصیت میں درج ہدایات کے مطابق Madam Melanieنے ہانیمن کی تدفین کی رسومات میں صرف مسلمانوں کو مدعو کیا اور مسلمانوں کی تلاش کی خاطر اس نے ہانےمن کے انتقال کے 9 دن بعد تک انتظار کیا۔ ہانیمن کا انتقال 2 جولائی 1843ءکو ہوا لیکن اس کی تدفین 11 جولائی 1843 کو ماﺅنٹ میریٹری کے ایک گمنام قبرستان میں ہوئی۔