ایم بی بی ایس اور ہومیو ڈاکٹرز
ہومیو ڈاکٹر محمد امین
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے دو ارکان ‘ےٰسین رحمان اور ڈاکٹرعنایت نے 6 مارچ 2010 کو صحت اور میڈیکل پروفیشنلز کے ضمن میں اپنی متفقہ سفارشات قومی اسمبلی میںپیش کر دی ہیں‘ جس میں وزار تِ صحت کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہو میو پیتھ ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ صرف ہو میو پیتھ لکھیں کیونکہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ یسٰین رحمان اور ڈاکٹر عنایت نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں‘ وہ نہایت فضول ہیں‘ مگر افسوس تو یہ ہے کہ ان صاحبان کو ڈاکٹر کا مطلب ہی نہیں معلوم ہے‘ اگر انہیں ہومیوپیتھ کے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے پر اعتراض ہے تو ان سے ہومیوپیتھک ایسوسی ایشن سوال کرتی ہے کہ بیچلر ڈگری کا حامل کوئی بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھ سکتا‘ اگر ایم بی بی ایس کا جائزہ لیا جائے تو اس کا مخفف ”بیچلر آف میڈیسن ‘ بیچلر آف سرجری“ بنتا ہے‘ تو جناب یہ حضرات تو ماسٹر ڈگری کے حامل بھی نہ ہوئے۔
انکی مزید معلو مات کیلئے انہیں یہ بھی بتا دیں کے جب کوئی شخص کسی چیز میں پی ایچ ڈی کرتا ہے چاہے وہ کسی مشہور شخصیت کی حالات زندگی کے بارے میں ہو‘ کسی سائنسی حوالے سے ہو یا کسی میڈیسن کے حوالے سے ہوں‘ اس شخص کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے۔ جس طرح اردو لٹریچر میں ڈگری حاصل کرنے والے کو ڈاکٹرکہتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے اعتراض پی ایچ ڈی ڈاکٹروں پر ہونا چاہئے جن کا ادویات کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا‘ پھر سائنس دانوں پر اعتراض ہونا چاہئے کیونکہ وہ بھی میڈیکل لائن سے بالکل الگ تھلگ ہوتے ہیں جبکہ ہومیوپیتھ پھر بھی ادویات پر کام کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں پڑھتے ہیں‘ ریسرچ کرتے ہیں اور علاج کرتے ہیں‘ تو پھر ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا انہیں کیوں پریشان کرتا ہے۔ معذرت کے ساتھ ایلوپیتھک کے طریقہ علاج سے مایوس کئی لوگ ہومیوپیتھک سے شفا یاب ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایلوپیتھی طریقہ علاج صحیح نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں‘ ایلوپیتھک جدید طریقہ علاج ہے‘ لیکن ہومیوپیتھک بھی کسی طرح پیچھے نہیں جبکہ ہومیوپیتھک علاج ایلوپیتھک علاج کے بعد دوسرا بڑا علاج کا طریقہ ہے جس کا اعتراف عالمی ادارہ صحت( ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی کیا ہے۔ آج ہومیوپیتھک کے طریقہ علاج نے اس بیماری کے علاج میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں‘ جنہیں دوسرے طریقہ علاج نے ہتھیار ڈال کر مریض کو مایوس کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کا رجحان ہومیوپیتھک علاج کی طرف زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس وقت ہومیوپیتھک میں بڑے بڑے نامور ڈاکٹر اپنے جوہر دکھا چکے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اعتراض اٹھا کر یہ 1965 کی آئنی شقوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جس کی رو سے ہومیوپیتھ اپنے نام کے ساتھ ڈکٹر کالفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ چونکہ فی زمانہ طبیب کےلئے ڈاکٹر کا لفظ مستعمل ہے ‘ اگر لفظ ڈاکٹر لکھنا ہومیو پیتھک معالجین کےلئے ممنوع ہے تو پھر کسی بھی معالج کیلئے لفظ ڈاکٹر کالکھنا ضروری نہیں ہے۔
اس سسٹم کو دوصدیاں گذر جانے کے باوجود اس سے خائف آج تک ہومیو پیتھک طریقہ علاج کوختم نہ کر اسکے۔ پاکستان میں سرکاری سرپرستی نہ ہو نے باوجود ہومیو پیتھک سسٹم آف میڈیسن پاکستان میںریکارڈ ترقی کر رہاہے۔ یہاں حیرت انگیز بات یہ کہ پاکستان میں ہومیو پیتھک طریقہ علا ج سے شدید تعصبات اور حکومتی سرپر ستی نہ ہونے کے باوجو یہ آج ناصرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں اپنا لوہا منوا رہاہے اور اس سسٹم کو اس کے شفا بخش ہونے کی وجہ اس سسٹم کے مخالفین جی بھرکر اس پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ اس میں تمام کے تمام وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو ایم بی بی ایس کے نصاب کا حصہ ہیں۔
یہ بات ہر ایلو پیتھ جانتا ہے کہ ایلوپیتھک ادویات میں اسپرین سے لیکر تمام کی تمام ہائی اینٹی بائیوٹک تک ادویات شفایابی سے زیادہ اپنے اندر مضرِ صحت اثرات رکھتی ہیں۔اگر یقین نہیں آتا تو ہر دوا کے بارے میں انٹرنیٹ پر اس کے مضر اثرات دیکھے جا سکتے ہیںاور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کی رپورٹس میں بھی ایلوپیتھک ادویات کے مضر صحت اثرات پر کئی رپورٹ منظر عام پر آتی رہتی ہیں‘اس کے بر عکس ہومیو پیتھک ادیات کے کسی قسم کے مضر اثرات نہیں ہوتے ہیںیہ ہی ہومیو پیتھک ادیات کا کمال ہے‘ یہ ادویات ڈائنامک طریقے پر شفایابی فراہم کرتی ہیں۔
انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ طب کے میدان میں تعصبات کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ غریب عوام کی فلاح کےلئے حکومت کو ہر بہتر اقدام اٹھانا چاہئے اور ہر ڈاکٹر کوچاہے اس کا تعلق ایلو پیتھک سے ہو یا ہومیوپیتھک سے‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت میں خادم کی طرح تیار رہنا چاہئے۔ ہمارے ہاں قوم کو طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ہومیو پیتھی بے حد سستا علاج ہے۔ بھارت جرمنی‘ امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے ہر ہسپتال میں ہومیو پیتھی کا شعبہ بھی کھولا جانا چاہئے تاکہ ایلوپیتھک سے مایوس افراد ہومیو پیتھک سے مستفید ہو سکیں۔