ڈاکٹر محمد امین
فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن-سوانح عمری
فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن-سوانح عمری
علاج با لمثل یعنی ہومیوپیتھک کا جب بھی ذکر ہوگا تواس طریقہ علاج کے بانی ہانیمن کا تذکرہ بھی یقینا ہوگا۔انہوں نے سالہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد بنی نوع اانسان کی فلاح وبہبود کیلئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ آج ساری دینا میں یہ طریقہ علاج مقبول ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہانیمن کے طریقہ علاج کو دوسرا عظیم ترین تھیراپیوٹیک(امراض کی روک تھام) سسٹم قرار دیا ہے۔اسی عظیم ہانیمن کا یوم ولادت ہر سال10 اپریل کو جوش و خروش سے منایا جاتاہےہانیمن نے انیسویں صدی کے ابتداءمیں بہت شہرت پائی نہ صرف امریکہ میں جہاںآج بھی ہومیوپیتھک معالج ملتے ہیں بلکہ پورے یورپ میں ہومیو ادویات بڑی مقدار میں بلاروک ٹوک استعمال کی جارہی ہیں۔ ہانیمن نے بنی نوع انسان کی خدمت کےلئے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جس سے ہزاروں مریض اللہ کے حکم سے شفاپا رہے ہیں۔1707ءمیں کیمیا دان جان فرائیڈرک باٹگر اور طبیعات کے ماہر والٹر وان یورپ کے شہر شماس میں پہلی دفعہ چینی کے برتن بنانے کا آمیزہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح 1710ءکو جرمن ریاست سکیسونی میں چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ قائم ہوا۔ بہت سے رنگ روغن کرنے والی اس فیکٹری میں رکھے گئے ان میں ہومیوپیتھی کے بانی فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن کے والد کرسچن گوٹ فرائیڈ ہانمن بھی تھے۔ جو لاش ٹیڈ سے ہجرت کر کے میسن سکیسنی آئے۔ فریڈرک سموائیل ہانمن کی ماں جوانا کرشٹینا ایک سکیسونی کپتان کی بیٹی تھی۔ سات سالہ جنگ (63-1756 ) کے دوران چینی کے برتن بنانے والی فیکٹری تباہ ہو گئی۔ جس نے برتنوں پر رنگ و روغن کرنے والوں کو خاصا متاثر کیا۔ جن میں ہانمن کا خاندان بھی شامل تھا۔ اس طرح یہ خاندان انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزارنے لگا ہومیوپیتھی کے بانی غیر معمولی عالم فرائیڈرک سیموئیل ہانیمن میسن سکیسونی میں 10 اپریل 1755ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کا قد''3-6' تھا خاندان کے لوگ اس کو پیار سے ہینی کہہ کر پکارتے تھے اپنے بہن بھائیوں میں آپ کا کا تیسرا نمبر تھا۔ خاندان کی غربت نے ہانیمن کی تعلیم پر خاصہ برا اثر ڈالا۔ اس کے باوجود ہانیمن کے والد نے اس کی تعلیم و تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ہائی سکول1775ایس ٹی افرا میسن‘میڈکل سکول کی تعلیم یونورسٹی آف لیپزنگ اور یونیورسٹی آف ویانا‘ایم ڈی1779ایرلانگنیونیورسٹی‘پروفیسر12-1811 لیپزگ یونیورسٹی۔اس کے والد نے ہانیمن کے دماغ کو اچھے اور قیمتی خیالات اور نظریات کی آماجگاہ بنایا۔ ابتدائی تعلیم اس نے اپنے والد اورمیسن سکیسونی کے سٹی سکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے ایس ٹی افرا کے پرنس لی سکول میں داخلہ لیا۔ وہ اکثر اپنے باب کو کام کرتا دیکھتا اور ہر چیز کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ ہانیمن نے لڑکپن سے ہی اپنی تعلیم کی طرف مکمل توجہ دینی شروع کی اور ابتدائی تعلیمی زندگی میں ہی کافی غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کر دی۔ پرنس لی سکول سے امتحان پاس کرنے کے بعد ہانیمن نے اپنا الوداعی خطاب لاطینی زبان میں کیا۔ اور اپنے سکول کے استاد مولر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مجھے اپنے بچے کی طرح سمجھا اور مجھے اپنے طریقے سے سیکھنے کی آزادی دی۔ 1775ءمیں ایک خیرخواہ جس کا نام گارنر تھا ہانیمن کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لیپزگ بلا لیا۔ اس وقت ہانیمن کے معاشی حالات بہت زیادہ خراب تھے معاشی بچاﺅ کیلئے ہانیمن نے غیر ملکی ساتھی طلباءکو مختلف زبانوں سے متعلق اسباق پڑھانے شروع کر دیئے اور طب‘ کیمسٹری پر غیر ملکی تحقیقات کے تراجم کئے۔ 1777ءمیں لیپزگ میں چار جماعتیں پڑھنے کے بعد اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ یہاں عملی تربیت کیلئے کوئی مطب یا کلینک نہ تھا۔ جس سے طلبہ کو طب کے عملی پہلو کو سیکھنے کا موقع ملے تو ہانیمن وہاں سے ویانا آگئے۔ ویانا میں ہانیمن کو برون جوزف وان کورین (1814-1733) جو ملکہ ماربر تھریسا (1717- 1780) کا تاحیات طبیب اور ہسپتال کے سربراہ کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ برون جوزف وان کورین نے ہانیمن کی پوشیدہ صلاحیتوں کو جلد پہچان لیا اور اس کو اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اس کے ساتھ پرائیویٹ مریضوں کے معائنے کیلئے جایا کرے۔ ہانیمن اس کے شاگردوں میں واحد شخص تھا جسے یہ اعزاز حاصل ہوا۔ تاہم ایک مرتبہ پھر ہانیمن کو معاشی قوتوں نے روک دیا‘وہ اپنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اور کئی ماہ تک نوکری ڈھونڈتا رہا۔ 1780ءمیں ازلبن Eislebenکے نزدیک ہٹ شیٹیڈHettstedt چلا گیا اور اسی سال اس نے ایک طبی معالج کے طور پر اپنی پریکٹس Magdeburg کے نزدیک گومرن میں شروع کر دی۔ 1781ءکے موسم بہار سے اس نے ڈیساﺅ میں کام شروع کر دیا‘ نوجوان ڈاکٹر نے چلتی پھرتی پیشہ وارانہ زندگی شروع کر دی اور ایک دوا ساز کچلرKuchler کی سوتیلی بیٹی جوھاننا ہینریٹ Johanna Henriette سے شادی کر لی اس اس وقت ہانیمن کی عمر 27 سال تھی۔ اس شادی کے نتیجے میں ان کے ہاں 9 بچے پیدا ہوئے(بعض روایات میں11بچے ہیں) جن میں 7 بیٹیاں اور2بیٹے تھے۔پہلی بیٹی ہینرٹاجو1783میں پیدا ہوئی‘بیٹافریڈک 1786میں پیداہوا ‘1788میںبیٹی ویلیلمیناپیدا ہوئی‘1791میںایک اوربیٹی کیرولین‘1795میںبیٹی فریڈریکا‘پھر ایک بیٹا1798میںارنسٹ‘1805میں بیٹی کارلوٹ اور1806میں آخری بیٹی لوئسہ پیدا ہوئی۔ 1781ءمیں ہانیمن ڈاکٹر آف میڈیسن بن گیا اور اس نے روایتی ایلوپیتھک ادویات پر کام شروع کر دیا۔ شادی کے ابتدائی سالوں میں اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اس نے پریکٹس شروع کر دی تھی ساتھ ہی سائنسی اور طبی کتب کا ترجمہ بھی کرتا رہا۔ یہ وقت ڈاکٹر ہانیمن نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شدید غربت میں گزارا وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا۔ جس کو ایک پردے کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا دن میں اپنی تحقیق پر کام کرتے اور دوسری رات جاگ کر مختلف تصانیف کا ترجمہ کرتا۔ ہانیمن اس طرح اپنے گھریلو اخراجات پورے کرتا رہا۔ جلد ہی ہانیمن کا اس زمانے کے طبی طریقے کار سے اعتقاد ختم ہو گیا اور آپ 1783ءمیں ڈریسڈن چلے گئے جہاں آپ نے فرانزک میڈیسن forensic medicine کے شعبے کیلئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس کوعوامی مقبولیت پھر بھی حاصل نہ ہو سکی۔ 1784ء ”جلدی امراض“پر ایک کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ زخموں کے علاج اور ہڈیوں کو گلنے سڑنے سے کیسے بچایا جائے ۔ 1786ءمیں ہانیمن نے سنکھیا کے زہر کے متعلق ایک کتاب لکھی جیسے اس دور میں کافی پذیرائی ملی اور 1787ءمیں شراب کی جعلسازی کو جانچنے کا طریقہ ایجاد کیا اس کا یہ تجربہ مقبولیت حاصل کر گیا۔ 1789ءہانیمن نے ایک مرتبہ پھر لیپزگ کا رخ کیا اور جہاں اس نے حل پذیر پارہ تیار کیا جو جنسی بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہوا۔ اس وقت تک وہ جانا پہچانا کیمیا دان بن گیا۔ ہانیمن کی ایلوپیتھک پریکٹس کا دورانیہ تقریباً 10 سالوں پر محیط تھا۔ اس دوران اس نے ہر ممکن حد تک ایلوپیتھک ادویات کا کم استعمال کرتے ہوئے ورزش اور مناسب خوراک کا استعمال کرایا اور مریض کو اضافی تکالیف سے بچایا۔ 1790ءمیں اس نے اپنی ایلوپیتھک پریکٹس کو مکمل طور ختم کر دیا اور خود کو کیمیا اور تصانیف کیلئے وقف کر دیا۔ (Haehl ` Reprint1992 ` Vol1- p64) اسی دوران اس نے ریڈن برگ کے طبیب ولیم کولن کے ایک میٹریا میڈیکل کے ترجمہ کے دوران پڑھا کہ دوا سنکونا (چائنہ یا کونین) ملیریا بخار کے علاج میں مفید ہے۔ کیونکہ یہ دوا ذائقے میں کڑوی اور جسم کی بافتوں کو کھولنے والی ہے اور اس کا معدہ پر خاصا اثر ہے۔ ہانیمن اس بیان کی سچائی سے مطمئن نہ ہوا اس طرح تو تمام کڑوے اور سکڑنے والے مادے ملیریا کے علاج میں موثر ہونے چاہئیں لیکن وہ نہ تھے۔ لہٰذا ہانیمن نے سنکونا کے اثرات کا خود پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دریافت کیا کو سنکونا کھانے سے جو اثرات یا علامات اس کے اندر پیدا ہوئیں وہ ملیریا جیسی تھیں۔ دوائی چھوڑنے کے چار روز بعد یہ علامات خود بخود ختم ہو گئیں یہ پہلا ہومیوپیتھی ثبوت تھا اور یہ ہومیوپیتھی کے پہلے قانون کی دریافت Similia Similibus Curentur یا Like Cure like علاج بالمثل ہانیمن نے اپنی اس نئی دریافت کو ہومیوپیتھی کا نام دیا ہومیو (ایک جیسا) پیتھی (بیماری) مزیدنتائج کیلئے اس نے اس وقت کی دوسری ادویات تجربات شروع کردئے اور بیلاڈونا‘ ایکونائیٹ‘ اور کیمفر اور ان سے پیدا ہونے والی علامات کا مطالبہ کیا ان تجربات کے نتائج کی روشنی میں نئے طبی اصولوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ۔ہانیمن کی اکیلی اور کم سے کم دوا سے علاج کا طریقہ دوا سازوں کی طاقتور تنظیموں کیلئے خطرہ بن گیا اور سب اس کے مخالف ہوگئے۔ ہانیمن کی زندگی کا یہ دور دوبارہ تبدیل ہونے والا تھا 1792ءسے 1805 تک اس نے اپنے بڑھتے ہوئے خاندان کے ساتھ دس مرتبہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی۔ 1794ءمیں مولسلیبن Molshlebenسے پائیرمونٹ Pyrmontگیا اور اسی سال گوٹنجن پہنچا۔ 1799ءیا 1800ءہمبرگ الٹونا گیا یہاں ہانیمن نے مزاحیہ ڈرامہ نگار ویسل کا علاج کیا جو تقریباً 1786ءسے پاگل پن کا شکار تھا۔ 1796ءمیں ہانمن اپنا طبی نظریہ پیش کیا جو 1796ءکو ہیوف لینڈ کے جریدے میں شائع ہوا جس میں اس نے اپنے کونین سے متعلق تجربات کے بارے میں اظہارخیال کیا کہ ادویات زیادہ طاقتور ہیں جو کہ صحت مند جسم میں شدید بیماری پیدا کر دیتی ہیں۔ تاہم وہ اس نظریہ تک پہنچنے میں کہ ایک جیسی چیز کا علاج اس جیسی چیز ہی سے ہے ابھی بہت دور تھا۔ معالجین اور فلسفیوں نے اس نظریہ کو وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال میں جدت دی تھی۔ ہانمن نے افلاطون سے اپنا ادھار چکادیا تھا۔ اس نظریہ کی ترویج یونان میں۰۹۴قبل مسیح اور افلاطون نے۰۶۴ قبل مسیح میں کی تھی۔اس کے حوالے ہندوستان کے طبی نصاب میں ملتے ہیں۔اس کے علاوہ قدیم چینی طبی نصاب میں بھی اس ک ے حوالے موجودہیں۔ افلاطون کا خیال تھا کہ علاج کے دو ممکنہ طریقے ہیں۔ متضاد سے یاپھر ایک جیسی اشیائسے (پہلی صدی عیسوی روم) رومی طبی مصنفین نے اس نظریہ کو اپنانے کے ساتھ اس کی ترویج بھی کی۔ متضاد اشیاءسے علاج کے طرےقے کو ایک صدی کے بعد گیلن نے اپنایا (1493-1541ءابتدائی ادویہ میں قوت حیات کی مرکزیت بیان کرنے والا عظیم مجدد طبیب پیرا سلیس تھا جوہانیمن کے علاج کے تخیلاتی خاکے کے قریب ترین تھا۔1801ءمیں ہانیمن نے اپنے ادویات کی مقدار کو کم کرنے کے نظریے کو وسعت دی کہ ادویات کی طاقت کو کم کرنے سے ایک طاقت کے طور پر کام کرتی ہیں۔ 1805ءمیں ہانیمن نے 27 ادویہ کے اپنے اوپر تجربات ایک لاطینی کتاب میں بیان کئے۔ اس کے نظریے کے مطابق ان ادویات کی آزمائش ایک صحت مند جسم پر کی جاسکتی ہے۔ اس نے سارے تجربات خو پر کئے اور 1807ءمیں اس نے اپنے طبی نظام کو ہومیوپیتھی کا نام دیا۔1808ءمیں ہانیمن نے ایک مشہور معالج کرسٹوف ولیلم ہوف لینڈ Christoph Wilhelm Hufeland کو ایک خط لکھا کہ میں طب کے عام طریقہ علاج پر 18 سال سے عمل پیرا رہا ہوں اور یہ بہت سی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے کیونکہ یہ طریقہ علاج نئی بیماری کو پیچیدہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ یہ انتہائی بے ترتیب ہے۔ہانیمن کی ہومیوپیتھی تعلیمات کا مکمل خلاصہ ہانیمن کی کتاب آرگنین میں 1810ءمیں Dresdenڈریسڈن میں منظرعام پر آیا۔ ہانیمن نے اس میں ایک جامع نظریاتی نظام پیش کیا ہے جو کہ 291 پیراگراف پر مشتمل ہے۔ ہانیمن کے انسان کو مکمل طور پر فوقیت دی اور اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پر زور دیا۔ اسی سال جب نپولین نے لیپزگ پر حملہ کیا تو تقریباً 80,000 لوگ مارے گئے ہانیمن نے جنگ میں بچ جانے والے اور ٹائیفائیڈ کی وباءسے متاثر ہونے والوں کا علاج کیا جو ہومیوپیتھی کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوا۔ ہانیمن نے لیپزگ یونیورسٹی میں پڑھایا جہاں اکثر اس کے لیکچر تندو تیز حملوں میں روایتیادویات Conventional Medicine کے خطرناک طریقہ علاج کے خلاف تبدیل ہوجائے تو اس کے طالبعلموں نے ہانیمن کا نام ”بڑھتا ہوا طوفان“ رکھ دیا۔مریض کے بارے میں ہانیمن کی تحقیق انفرادی طور پر ہوا کرتی تھی ہر بیماری کو وہ انفرادی طور پر دیکھا کرتا تھا۔ 1799ءمیںاس نے مریضوں کے باقاعدہ ریکارڈ لکھنے شروع کئے۔ ہومیوپیتھی پر اس کا دوسرا بڑا تحقیقی کام چھ جلدوں پر مشتمل ”میٹریا میڈیکا پیورا“ 1811ءاور 1821ءکے درمیان شائع ہوا۔ جس میں 66 ادویات شامل کی گئی تھیںاس کو ”خاص ادویہ سازی کا نظریہ“ کا نام دیا گیا ۔ اس میں اس نے ہر دوائی کا اثر بیان کیاگیا ہے۔1821-1811ءکے دوران ہانیمن لیپزگ میں اپنی پریکٹس میں مصروف ہوگیاتھا 1812ء اسے یونیورسٹی میں استاد کا عہدہ دیا گیا۔ اس طرح وہ اپنے نظریہ ہومیوپیتھی کو طلباءتک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔1813ءمیں لیپزگ کے نزدیک جنگ میں بخار کی وباءپھوٹ پڑی اور 1/3 مریض اس وباءسے دوسرے طریقہ علاج سے مر گئے جبکہ ہانیمن کے پاس 183 مریض تھے جن میں سے صرف ایک بوڑھی عورت مری۔ہومیوپیتھی دوا کی کم مقدار پر بڑھتے ہوئے اچھے اثرات نے روایتی طبی حلقوں میں اس سے دشمنی کو جنم دیا خصوصادوا سازوں نے‘ کیونکہ ہانیمن اس بات پر زور دیا تھاکہ معالج کو دوا خود تیار کرنی چاہئے۔ ہانمن نے دلبرداشتہ ہوکر لیپزگ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا 1821ءمیں جب ہانیمن کی عمر 66 برس تھی تو ڈیوک آف کوتھن نے ہانیمن کو کوتھن آنے کی دعوت دی۔ جیسے اس نے قبول کر لیا ڈیوک نے اس کوتاحیات ادویات تیار کرنے کی اجازت دے دی1828ءمیں ہانیمن نے اپنے چار جلدوں پر مشتمل کام کی پہلی تین جلدوں کو شائع کیا۔ اس میں اس نے پرانے امراض سے متعلق نظریہ کو پیش کیا۔ا1829ءمیں ہانیمن نے اپنی ڈاکٹری کی ڈگری کی پچاسویں سالگرہ منائی۔ 400 معالجین نے اس کے منانے کے لاطینی پروگرام پر دستخط کئے اور اسی سال جرمنی ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی تنظیم بنائی گئی۔ 1831ءمیں ہانیمن نے ایک کتاب ”ایلوپیتھی ہر قسم کے بیمار لوگوں کےلئے انتباہ“ شائع کی ۔ 1831-32ءمیں جب پورے یورپ کے ایک بڑے حصہ میں ہیضے کی وباءپھوٹ پڑی تو روایتی ادویات بے کار ثابت ہو رہی تھیں تو ہانیمن نے ہومیوپیتھی طریقہ علاج اور ہیضے کے بارے میں ضمیمہ شائع کیا ان کی تجاویز اور احتیاطی تدابیرسے بہت سے مریضوںکوشفاءملی۔ جس کی شرح علاج میں 96% تھا۔ بہ نسبت ایلوپیتھی کے 41% شرح کے اس کامیابی کی وجہ سے 1832ءمیں لیپزگ میں پہلے ہومیوپیتھک ہسپتال کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے ایک جستجوکا دروازہ کھول دیا۔1819ءمیں آسٹریا کے علاقہ جات میں ہومیوپیتھک پریکٹس پر قانونی طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ -32 1831ءمیں ہیضے کی وباءمیں بہترین کام کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شفایاب کرنے کے صلہ میں 1836ءمیں یہ قانون منسوخ کر دیا گےا۔1832ءمیں ہانیمن نے سوسائٹی آف ہومیوپیتھی کو منظم کیا اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج امراءمیں عام ہوگیا۔ہانیمن کی پہلی بیوی ہینرائیٹ Henriette 1827ءمیں انتقال کر گئی تھی۔ 8 اکتوبر 1834ءکو 33 سالہ میلانی ڈی ہروالی گوئیر نے اپنے چہرے کے درد کر علاج کےلئے رجوع کیا۔ اس وقت ہانیمن کی عمر تقریباً 79 سال تھی۔ وہ ہانیمن کے علاج سے بہت متاثر ہوئیں اور 18 جنوری 1835ءمیں جب ہانیمن کی عمر تقریباً 80 سال کی تھی سے شادی کرلی اور ہانیمن 14 جون کو پیرس چلا گیا۔ جس کی وضاحت ایک ہومیوپیتھی جریدہ نے 13 جولائی 1935ءکو شائع کی۔وہاں کی ہومیوپیتھک سوسائٹی نے ہانیمن کا بہت اچھا استقبال کیا اور اس کو اپنی پریکٹس منظم کرنے میں اس کی بہت مدد کی اور وہاں ہانیمن فرنچ ہومیوپیتھی سوسائٹی کا چیئرمین بن گیا۔ اپنی چھیاسیویں سالگرہ پر اس کو اس کے آبائی شہر میسن کے معزز شہری کا اعزاز دیا گیا۔ 23 مارچ 1843ءکو ہانیمن سانس کے مرض میں مبتلا ہو کر بیمار ہوگیا اور اپنی طاقت کھونے لگا۔ سیموئیل فرائیڈرک ہانیمن 2 جولائی 1843ءکو 88 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ہومیوپیتھی کا بانی ہانیمن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور بعض لوگ معلوم ہونے کے باوجود نہ صرف اس بات کو چھپاتے ہیں بلکہ اس کے خلاف پراپوگنڈہ بھی کرتے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جون 1835 میں ہانیمن نے اپنی دوسری بیوی میلانی ڈی ہرولیMelanie D Hervilly کے ہمراہ فرانس کی طرف ہجرت کی اوردوبارہ کبھی بھی اپنی جائے پیدائش یا وطن جرمنی دوبارہ نہیں گیا۔ اس بات کی اصل وجہ صدیوں تک پراسراریت کا شکار رہی۔ مغرب کے تنگ نظری پر مشتمل جذبات کی وجہ سے اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اپنی ابتدائی تعلیمی زندگی میں اس نے غیرملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ 1777 تک وہ جرمن‘ لاطینی‘ یونانی‘ انگریزی اور ہسپانوی زبان بولنے اور لکھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ پیدائشی عالم ‘فلاسفرہانیمن نے ایک مرحلے پر عربی سیکھنا بھی شروع کی تاکہ مسلمانوں کے سنہری دور میں دنیائے طب میں برپا ہونے والے انقلاب کے بارے میں جان سکے جس کا تعلق طب کی قدیم تاریخ سے جاملتا ہے۔ اس کے اقوال اور تحریریںعربی میں کم ہیں ،مگریہ اس کے عربی مطالعے کی گہرائی کو ثابت کرتی ہےں۔ان تحریروں کوآرای ڈجنR.E. Dudgeon نے اکٹھا کیا ہے (R.E.Dudgeon صفحہ 579, 571 وغیرہ) ۔ہانیمن ،نبی آخر زمان اورعظیم فلاسفر حضرت محمدﷺ کی تعلیمات سے نہ صرف متاثر تھا بلکہ ان کی تعلیمات کے اس پر گہرے اثرات بھی تھے ۔ ایک وقت پر اس نے قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا تھا اور مسلمان ہوگیا۔ یہ خبر جب اس کے دوستوں اور خاندان میں پھیلی تو وہ لوگ اس سے بہت ناراض ہوئے اور اس کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ان دھمکیوں کی وجہ سے اس نے اپنی عظیم الشان دریافت ہومیوپیتھی کو فروغ دینا بند کر دیا۔ تاہم اس نے اپنی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد اپنے خاندان کے لوگوں میں تقسیم کر دی اور اسی سال دو ماہ کے عرصہ میں فرانس کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس کا ابتدائی نام ’سیموئیل ‘ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا نام پر رکھا گیا تھامسلمان ہونے کے بعد اس نے اس نام کو استعمال کیا اوراس کے بعد پرانا نام کرسچن فریڈرچ کبھی استعمال نہ کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہانیمن نے اس نام کو بنی اسرائیل کے نبی کے نام پر رکھا تھایا کسی اور کے نام سے یا پھروہ خود اسلام کے لئے سچ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ہانیمن میوزیم میں جو پائس پیلس گریٹ آرمنڈ سٹریٹ لندن WBUC-Uk میں واقع ہے، اس کی کتابوںاور روزمرہ استعمال کی بہت سی چیزوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے استعمال شدہ کپڑوں میں قابل ذکر شے خوبصورتی سے تیار کی گئی جانماز ہے۔اس کے علاوہ ایک تسبیح ، ایک ترکی ٹوپی‘ بھی ہے ۔جائے نماز پر مسلسل استعمال کے واضح نشانات بھی موجود ہیں۔اس کی کتابوں کے ذخیرے میں قرآن پاک کا نسخہ بھی شامل ہے۔یہاں اہم بات یہ ہے کہ-1 ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے کبھی ”ٹرنٹی“ Trinityکی اصلاح استعمال نہیں کی جو کہ عیسائیت کی واضح علامت ہے انہوں نے ہمیشہ خالق کی اصطلاح استعمال کی ہے۔-2 کتاب ”سیموئیل ہانیمن اس کی زندگی اور کام“ (مصنف رچرڈ رئیل جلد دوم صفحہ 389) میںایک خط نقل کیا گیا ہے۔ جس میں ہانیمن اپنے ایک مریض کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ،”ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس ایک کی دوستی میں پرسکون ہیں تو کیا ہمیں کسی اور مذہب کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کچھ نہیں اس کے علاوہ ہر چیز قابل رحم گھٹیا انسانی تصور ہے جو توہمات سے بھرا ہواہے، انسانیت کی سچی تباہی کے اسی صفحے پر ایک اور خط میں مندرجہ بالا کتاب کے ذیل میں تحریر ہے۔ ”میں تسلیم کرتا ہوں سچے شکر کے ساتھ ، بے پناہ رحم اس ایک دینے والے کا تمام بھلائیوں کے“ہانیمن کے مسلمان ہونے کے بارے ایک واضح ثبوت صفحہ نمبر 245 جریدہ (Allgem Anzieg Der Deutsehen) (Vol XII NO 6) پر ہے جو برٹش میوزیم میں رکھا ہے اور اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہانیمن کی وصیت میں درج ہدایات کے مطابق Madam Melanieنے ہانیمن کی تدفین کی رسومات میں صرف مسلمانوں کو مدعو کیا اور مسلمانوں کی تلاش کی خاطر اس نے ہانےمن کے انتقال کے 9 دن بعد تک انتظار کیا۔ ہانیمن کا انتقال 2 جولائی 1843ءکو ہوا لیکن اس کی تدفین 11 جولائی 1843 کو ماﺅنٹ میریٹری کے ایک گمنام قبرستان میں ہوئی۔ 1898ءمیں اس کی لاش کو پیری لاشیز کے قبرستان میں لایا گیا جہاں 1900ءمیں اس کی قبر پر ایک یادگار بنا دی گئی اور اسی قسم کی ایک یادگار 1851ءمیںلیپزگ میں بنائی گئی۔ہانیمن کے معمولاتگرمیوں کے دنوں میں عموماً صبح 6 بجے سے پہلے سردیوں میں 7 بجے سے پہلےبیدار ہو جاتا تھا۔ صبح ناشتے میں دو گلاس تازہ دودھ بغیر ابلا ہوا کیونکہ صبح نہار منہ دودھ معدہ کی تمام ترش رطوبتوں کو زیادہ مقدار میں پیدا ہونے سے روکتا ہے اور تیزابیت پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس کے بعد آپ باغ میں کافی دیر تک سیر کرتے اور سیر کرنے کے بعد اپنے کلینک میں چلا جاتا اور خط و کتابت شروع کردیتا اور تقریباً 10 بجے تک مریض آنے شروع ہوجاتے۔اس دوران اس کی بیٹی تھوڑے سے موسمی پھل لاتی جو ہانمن اسی وقت کھا لیتے۔(دس بجے موسمی پھل الکین سالٹ اور وٹامن اور انتڑیوں کو طاقتور بناتے ہیں) اور بارہ بجے دوپہر کا کھانا کھانا جس میں گوشت‘ سبزیاں وغیرہ شامل ہوتی تھی۔ آپ پھول گوبھی کو شوق سے کھاتے تھے۔ آپ مربہ جات‘ میٹھی چیزیں اور کیک بہت پسند کرتے تھے۔ آلو پسند نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھار انگوری شراب وہ بھی مہمانوں کے ساتھ ہی پیتے تھے اور دوپہر کے کھانے کے بعد ایک گھنٹہ کےلئے سو جایا کرتے تھے۔گوشت اور سبزیاں دوپہر کو کھانا بہت اچھی غذا ہے جو ایک دوسرے کے مضر اثرات کو دور کر دیتے ہیں اور ان کی تاثیر میں اعتدال رہتا ہے اور دوپہر کو غذا کے بعد ایک گھنٹہ سونا غذا کو ہضم کرنے میں بہترین ہے اور اس کے بعد مریضوں میں مشغول ہوجاتے اور شام سات بجے تک یہ سلسلہ چلتا رات کی غذا میں صرف دودھ وہ بھی سردیوں میں پیتے اور گرمی کے موسم میں صرف بیئر اور ڈبل روٹی وغیرہ کا ٹوسٹ کھا لیتے۔رات کو صرف دودھ پینا اور گرمیوں میں بیئر اور ڈبل روٹی کھانا گرم موسم میں باآسانی ہضم ہوجاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment