Saturday, June 5, 2010

MBBS AND HOMEOPATHIC DOCTOR

ایم بی بی ایس اور ہومیو ڈاکٹرز

ہومیو ڈاکٹر محمد امین

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے دو ارکان ‘ےٰسین رحمان اور ڈاکٹرعنایت نے 6 مارچ 2010 کو صحت اور میڈیکل پروفیشنلز کے ضمن میں اپنی متفقہ سفارشات قومی اسمبلی میںپیش کر دی ہیں‘ جس میں وزار تِ صحت کو ہدایت کی گئی ہے کہ ہو میو پیتھ ڈاکٹر اپنے نام کے ساتھ صرف ہو میو پیتھ لکھیں کیونکہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں۔
یسٰین رحمان اور ڈاکٹر عنایت نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں‘ وہ نہایت فضول ہیں‘ مگر افسوس تو یہ ہے کہ ان صاحبان کو ڈاکٹر کا مطلب ہی نہیں معلوم ہے‘ اگر انہیں ہومیوپیتھ کے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے پر اعتراض ہے تو ان سے ہومیوپیتھک ایسوسی ایشن سوال کرتی ہے کہ بیچلر ڈگری کا حامل کوئی بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھ سکتا‘ اگر ایم بی بی ایس کا جائزہ لیا جائے تو اس کا مخفف ”بیچلر آف میڈیسن ‘ بیچلر آف سرجری“ بنتا ہے‘ تو جناب یہ حضرات تو ماسٹر ڈگری کے حامل بھی نہ ہوئے۔
انکی مزید معلو مات کیلئے انہیں یہ بھی بتا دیں کے جب کوئی شخص کسی چیز میں پی ایچ ڈی کرتا ہے چاہے وہ کسی مشہور شخصیت کی حالات زندگی کے بارے میں ہو‘ کسی سائنسی حوالے سے ہو یا کسی میڈیسن کے حوالے سے ہوں‘ اس شخص کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جاتا ہے۔ جس طرح اردو لٹریچر میں ڈگری حاصل کرنے والے کو ڈاکٹرکہتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے اعتراض پی ایچ ڈی ڈاکٹروں پر ہونا چاہئے جن کا ادویات کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا‘ پھر سائنس دانوں پر اعتراض ہونا چاہئے کیونکہ وہ بھی میڈیکل لائن سے بالکل الگ تھلگ ہوتے ہیں جبکہ ہومیوپیتھ پھر بھی ادویات پر کام کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں پڑھتے ہیں‘ ریسرچ کرتے ہیں اور علاج کرتے ہیں‘ تو پھر ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا انہیں کیوں پریشان کرتا ہے۔ معذرت کے ساتھ ایلوپیتھک کے طریقہ علاج سے مایوس کئی لوگ ہومیوپیتھک سے شفا یاب ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایلوپیتھی طریقہ علاج صحیح نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں‘ ایلوپیتھک جدید طریقہ علاج ہے‘ لیکن ہومیوپیتھک بھی کسی طرح پیچھے نہیں جبکہ ہومیوپیتھک علاج ایلوپیتھک علاج کے بعد دوسرا بڑا علاج کا طریقہ ہے جس کا اعتراف عالمی ادارہ صحت( ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی کیا ہے۔ آج ہومیوپیتھک کے طریقہ علاج نے اس بیماری کے علاج میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں‘ جنہیں دوسرے طریقہ علاج نے ہتھیار ڈال کر مریض کو مایوس کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں کا رجحان ہومیوپیتھک علاج کی طرف زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس وقت ہومیوپیتھک میں بڑے بڑے نامور ڈاکٹر اپنے جوہر دکھا چکے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اعتراض اٹھا کر یہ 1965 کی آئنی شقوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ جس کی رو سے ہومیوپیتھ اپنے نام کے ساتھ ڈکٹر کالفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ چونکہ فی زمانہ طبیب کےلئے ڈاکٹر کا لفظ مستعمل ہے ‘ اگر لفظ ڈاکٹر لکھنا ہومیو پیتھک معالجین کےلئے ممنوع ہے تو پھر کسی بھی معالج کیلئے لفظ ڈاکٹر کالکھنا ضروری نہیں ہے۔
اس سسٹم کو دوصدیاں گذر جانے کے باوجود اس سے خائف آج تک ہومیو پیتھک طریقہ علاج کوختم نہ کر اسکے۔ پاکستان میں سرکاری سرپرستی نہ ہو نے باوجود ہومیو پیتھک سسٹم آف میڈیسن پاکستان میںریکارڈ ترقی کر رہاہے۔ یہاں حیرت انگیز بات یہ کہ پاکستان میں ہومیو پیتھک طریقہ علا ج سے شدید تعصبات اور حکومتی سرپر ستی نہ ہونے کے باوجو یہ آج ناصرف پاکستان بلکہ ساری دنیا میں اپنا لوہا منوا رہاہے اور اس سسٹم کو اس کے شفا بخش ہونے کی وجہ اس سسٹم کے مخالفین جی بھرکر اس پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ اس میں تمام کے تمام وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو ایم بی بی ایس کے نصاب کا حصہ ہیں۔
یہ بات ہر ایلو پیتھ جانتا ہے کہ ایلوپیتھک ادویات میں اسپرین سے لیکر تمام کی تمام ہائی اینٹی بائیوٹک تک ادویات شفایابی سے زیادہ اپنے اندر مضرِ صحت اثرات رکھتی ہیں۔اگر یقین نہیں آتا تو ہر دوا کے بارے میں انٹرنیٹ پر اس کے مضر اثرات دیکھے جا سکتے ہیںاور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کی رپورٹس میں بھی ایلوپیتھک ادویات کے مضر صحت اثرات پر کئی رپورٹ منظر عام پر آتی رہتی ہیں‘اس کے بر عکس ہومیو پیتھک ادیات کے کسی قسم کے مضر اثرات نہیں ہوتے ہیںیہ ہی ہومیو پیتھک ادیات کا کمال ہے‘ یہ ادویات ڈائنامک طریقے پر شفایابی فراہم کرتی ہیں۔
انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ طب کے میدان میں تعصبات کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ غریب عوام کی فلاح کےلئے حکومت کو ہر بہتر اقدام اٹھانا چاہئے اور ہر ڈاکٹر کوچاہے اس کا تعلق ایلو پیتھک سے ہو یا ہومیوپیتھک سے‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت میں خادم کی طرح تیار رہنا چاہئے۔ ہمارے ہاں قوم کو طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ہومیو پیتھی بے حد سستا علاج ہے۔ بھارت جرمنی‘ امریکہ اور کئی دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے ہر ہسپتال میں ہومیو پیتھی کا شعبہ بھی کھولا جانا چاہئے تاکہ ایلوپیتھک سے مایوس افراد ہومیو پیتھک سے مستفید ہو سکیں۔




Wednesday, June 2, 2010

Homeopaths can use the title "HOMEOPATHIC DOCTOR"

Homeopaths can use the title
"HOMEOPATHIC DOCTOR"
under the approved act of 1965 section 39

EQUIVALENCE OF FOUR YEARS DIPLOMA IN HOMEOPATHIC

UNIVERSITY OF THE PUNJAB 22-10-2008

HAS DECIDED THAT THE FOUR YEAR DIPLOMA IN HOMEOPATHIC MEDICAL SYSTEM (DHMS) CAN BE EQUALIZED WITH B.Sc DEGREE



EQUIVALENCE OF FOUR YEARS DIPLOMA IN HOMEOPATHIC

EQUIVALENCE CERTIFICATE ON PASSING DIPLOMA IN HOMEOPATHIC MEDICAL SYSTEM (DHMS)

GOVERNMENT OF PAKISTAN MINISTRY OF EDUCATION

EQUIVALENCE OF FOUR YEARS DIPLOMA IN HOMEOPATHIC

WAFAQI URDU UNIVERITY PROVIDE EQUIVALENCY

CERTIFICATION TO DHMS AND BHMS (GRADED)

EQUIVALENCE OF FOUR YEARS DIPLOMA IN HOMEOPATHIC


HIGHER EDUCATION COMMISSION

EQUIVALENCE OF FOUR YEARS DIPLOMA IN HOMEOPATHIC

MEDICAL SYSTEM (DHMS) TO B.Sc. (HOMOEO).




Thursday, May 20, 2010

Homeopathic News

ہومیو پیتھک پریکٹشنرز کو نام کیساتھ ڈاکٹر لکھنے پر کوئی پابندی نہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی
اسلام آباد (آن لائن) 'قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم احسان نے واضح کیا ہے کہ ہومیوپیتھک پریکٹشنر پر اپنے نام کے ساتھ ہومیوپیتھک ڈاکٹر لکھنے پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی گئی انہیں اپنے نام کے ساتھ ہومیوپیتھک ڈاکٹر لکھنے کی مکمل آزادی ہے ڈاکٹر ندیم احسان نے کہا کہ ہفتہ کے روز قائمہ کمیٹی برائے صحت نے اپنے اجلاس میں طیب یونانی آریوویدک و ہومیوپیتھک بل کا جائزہ لیا اور اس کی منظوری دی تاکہ ان شعبہ جات کو منظم کیا جائے اور ان کی موثر طریقہ سے مانیٹرنگ کی جا سکے اس بل میں ان پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں۔ یونانی آریوویدک و ہومیوپیتھک پریکٹشنر ایکٹ 1965 کے تحت وہ تمام افراد جو کہ وزارت صحت کے منظور شدہ اداروں سے میڈیکل گریجویشن کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں انہیں اپنے نام کے ساتھ ہومیوپیتھک ڈاکٹر لکھنے کی اجازت ہے اور اس ایکٹ کے تحت انہیں مکمل تحفظ حاصل ہے۔

Monday, May 17, 2010

CODE OF ETHICS OF HOMEOPATHIC PRACTICE

ضا بطہ اخلاق برائے ہومیوپیتھک پریکٹس

CODE OF ETHICS OF HOMEOPATHIC PRACTICE

تحریر و تحقیق : ڈاکٹر ماس . بی ایچ ایم ایس

پاکستان میں ہومیوپیتھک ڈپلومہ ہولڈرز ڈیڈھ لاکھ، رجسٹرڈ ہومیو ڈاکٹرز ایک لاکھ بیس ہزار جبکہ رینویل ہومیو ڈاکٹرز 60 ہزار سے زائد کی تعداد میں ہیں۔ مگر آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی ان میں سے95% سے زائد ہومیوپریکٹشنر زوہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی اس کتابچہ جسے ضابطہ اخلاق (Code of Ethics)کہتے ہیں کا کبھی مطالعہ کیا ہو جو وزارت صحت حکومت پاکستان نے قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی کی مشاورت سے چھٹی نمبر F.3-7/66 UAH کے تحت منظور کر رکھا ہے اوریونانی آیورویدک اور ہومیوپیتھک پریکٹشنرز ایکٹ 1965-2002 کی زیلی شق 33/4 کے تحت اسکی خلاف ورزی پر ہومیوپیتھک ڈاکٹر کا نام رجسٹرڈ پریکٹشنرز لسٹ سے خارج کیا جاسکتا ہے یا ایک خاص مدت تک کے لئے مزید پریکٹس کرنے سے روکا جاسکتاہے اور خاص حالات میں اس پر مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ ایک عام ہومیو ڈاکٹر میں شعور بیدار کرنے، ان میںہومیوپیتھک پریکٹس کے دوران ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرنے اور معاشرہ میں ایک اچھے، تعلیم یافتہ اور حلیم شخصیت کے طور پر شہرت حاصل کرنے یا پہچان بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ہومیو پریکٹشنر کو ضابطہ اخلاق کے بارے مکمل آگاہی دی جائے تاکہ ہومیو ڈاکٹرز اس ضابطہ اخلاق پر عمل کرکے نہ صرف اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں بلکہ ہومیوپیتھی شعبہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس شعبہ کیلئے نیک نامی کا باعث بھی ہوں۔ یہاں صرف ضابطہ اخلاق کی چیدہ چیدہ شقیں درج کی جارہی ہیں۔ اصل مسودہ کیلئے قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی سے جاری انگریزی زبان میںمہیا کوڈ آف ایتھکس کتابچہ کا مطالعہ کریں
ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی پہچان
ہومیوڈاکٹر ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض اعلیٰ ا خلاق کے ساتھ ،ایک بہترین اور مستند پیشہ ورانہ معالج کے طور پر اس طرح ادا کرے کہ اسکا اعزایہ صرف مریض کی صحت ہو نہ کے اسکی دولت۔
فیس نہیں تو دیکھ بھال نہیں (No Fees No care) والی مثال پر عمل کرنا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس سے اجتناب ضرروی ہے۔ کوئی بھی ایسا کام نہ کیا جائے جو آپکے وقار کے منافی ہو یا جس سے پیشہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔ ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ صرف ہومیو پیتھک کے تجویز کردہ زریں اصولوں کی مطابق ہی پریکٹس کرے۔
ہومیوڈاکٹرز کے لئے انتبائ
قومی کونسل برائے ہومیوپیتھی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگرکسی ہومیوڈاکٹر کا غیر اخلاقی یاغیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونا ثابت ہوجائے یا وہ پیشہ کے منافی سرگرمیوں میں سرکردہ ہو تو اس صورت میں اس کی رجسٹریشن کلی یا ایک خاص مدت تک کیلئے منسوخ کردے۔ایسی طرح اپنی کسی پوسٹ یا عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھانا، اپنے ساتھی ہومیو ڈاکٹر پر جھوٹا الزام لگانا، پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کرنا یا غیر مقبول اقدامات کرنا ایسے جرم ہیں جس پر رجسٹریشن کلی طور پر منسوخ کی جاسکتی ہے۔
غیر تربیت یافتہ افراد کی بھرتی
کوئی ہومیو ڈاکٹر اپنے ساتھ بطور اسسٹنٹ غیر تربیت افراد کو ملازم نہ رکھے جو اس کی موجودگی یا غیر موجودگی میں مریضوں کیلئے علاج تجویز کرے ۔ ٹرینی سٹوڈنٹ یا ہاؤس جاب کرنے والاسٹاف اس سے مبرائ ہے۔ اسی طرح رجسٹرڈ ہومیو پریکٹشنرکو چاہئے کے وہ بھی کسی غیر تربیت یافتہ فرد کے کلینک پر اس کی معاونت نہ کرے۔
ہومیو فارماکوپیا سے انحراف
ہومیوڈاکٹرکو منظور شدہ ہومیوفارماکوپیا سے ہٹ کر پریکٹس کی اجازت نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یو اے ایچ ایکٹ شق نمبر 36 ۔ یاد رہے قومی کونسل نے ایک عدد فارماکوپیا چھاپ رکھا ہے جوکہ مرکزی حکومت (Federal Government) سے منظور شدہ ہے۔
پیشہ ورانہ فرائض وسرگرمیاں
ہومیو ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ کسی ہومیو سٹور یا کیمسٹ شاپ میں کلینک قائم نہ کرے یا اس سے علیحدہ تشخص قائم کرے۔ ہومیو ڈاکٹر اپنے کلینک، دوکان یا رہائش پر اپنے نام کے ساتھ حاصل کردہ ڈگریوں کا اندراج کرسکتا ہے مگر ایسا کلینک یا رہائش جہاں وہ وزٹ نہ کرتا ہو نیم پلیٹ (Name Plate) استعمال نہ کرے۔
دوسرے رجسٹرڈ اطبائ سے تعلق
ہومیوڈاکٹر کو چاہئے کہ کسی نئی جگہ کلینک کے آغاز پراخلاقی طور پر اپنے ہمسائیہ پریکٹشنر سے تعارفی ملاقات کرنی چاہئے ۔کلینک کے جو اوقات کار مقرر کریں اس میں ہومیو ڈاکٹر کو موجود ہونا چاہیے۔اقامتی ہومیو ڈاکٹر (Resident Homeopath) کو اختیار حاصل ہے کہ و زٹنگ ہومیو ڈاکٹر(Visiting Homeopath) کے دیر سے آنے پر مریض کا خود معائنہ کر لے۔ جب کسی ہومیو ڈاکٹر کو سرکاری طور پر کسی بھی میڈیکل کیس میں رپورٹ لکھنے کو کہا جائے تو وہ ایمانداری سے رپورٹ مرتب کرے ۔ اسی کیس پر پہلے سے قائم اپنے ساتھی پریکٹشنر کی رائے سے اختلاف سے اجتناب کرے۔اقامتی ہومیوڈاکٹر کے ہوتے ہوئے، ایمرجنسی کی صورت میں گھر پر مریض کو دیکھنے کےلئے بلائے جانے پروزٹنگ ہومیو ڈاکٹر اپنی سروس مہیا کرنے کے چارجز وصول کرسکتا ہے۔ اور وہی مریض دوبارہ معائنہ کے لئے اقامتی ہومیو ڈاکٹر کے بجائے وزٹنگ ہومیو ڈاکٹر سے براہ راست رابط کرلے تووزٹنگ ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ اخلاقی طور پر اقامتی ہومیو ڈاکٹر سے رابط کرکے مریض سے فیس وصول کرے ورنہ فیس نہ لے۔اگر کوئی مریض پہلے سے کسی ہومیو پریکٹشنر کے زیر علاج ہے تو اسی صورت میں بلائے گئے دوسرے ہومیو ڈاکٹر کو چاہئے کہ وہ پہلے ہومیوپریکٹشنر سے رابطہ کرکے علاج تجویز کرے۔ ایسی طرح کوئی مریض پہلے ہی کسی ہومیو ڈاکٹر کے زیر علاج ہے مگروہ کسی وجہ سے آپ کے کلینک پر آجا تا ہے تو ایسی صورت میں معلوم ہو جانے پر آپ متعلقہ ہومیو ڈاکٹر کو اعتماد میں لیں اور اسے تجویزکردہ دو ا اور اس کے نتائج سے آگاہ رکھیں۔
غیر تربیت یافتہ افراد سے رابطہ یا تعلق
رجسٹرڈ ہومیو ڈاکٹر کسی ایسے شخص کو میڈیکل اسسٹنٹس مہیا نہ کرے یا اس کے ساتھ کاروباری پاٹنر شپ قائم نہ کرے جو کولیفائڈ رجسٹرڈ پریکٹشنر نہ ہو۔ ہومیو ڈاکٹر اپنی معاونت (Assistance) کےلئے صرف کولیفائڈ رجسٹرڈ نرس، سٹاف یا دائی وغیرہ رکھ سکتا ہے۔ مگر ایسے سٹاف کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مریض کا معائنہ کرکے دوا بھی تجویز کریں۔
ہومیو ڈاکٹر کی فیس اور کمیشن
ہومیو ڈاکٹر اپنی مشورہ فیس کی عوام الناس میں تشہیر نہ کرے۔ ہومیو ڈاکٹر کی کوئی مشورہ فیس مقرر نہیں۔ مگر علاقہ کی نوعیت، پیشہ ورانہ قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر اس کا اطلاق ممکن ہے۔ ہومیو پریکٹشنر کو چاہئے کہ وہ مناسب کم حدتک اپنی مشورہ فیس مقرر کر لے۔ عمومی طور پر ایسا کوئی قانونی ضابط تو نہیں کہ ایک ہومیو پریکٹشنر، دوسرے پریکٹشنر کسی بھی میڈیکل سائنس کے شعبہ کا یا اس کے خاندان کے فرد سے مشورہ فیس وصول نہیں کر سکتا ۔ مگر اعلیٰ اخلاق کا تقاضہ یہی ہے کہ کوئی ہومیو ڈاکٹر دوسرے ہومیوڈاکٹر یا اسکی فیملی بیوی بچے اور والدین سے فیس وصول نہ کرے اور نہ ہی ہومیوپیتھک سٹونٹ سے مشورہ فیس طلب کرے۔
کسی ہومیو ڈاکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے ہومیو ڈاکٹر سے فیس کی مد میں کمیشن وصول کرے۔ ایسا کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بعض حالات (Cases) میں غیر قانونی بھی۔ اسی طرح ادویات کو لکھنے، مریض کے لیبارٹری ٹیسٹ کروانے، سرجری کیلئے ریفر کرنے اور الٹراساونڈ یا ایکس رے کروانے کی مد میں کسی شخص یا ادارہ یا سٹور کیپر سے کسی قسم کاکمیشن نقدی یاتحفہ (Cash or Gift) کی صورت میں وصول کرنانہ صرف پیشہ ورانہ اصولوں کے منافی ہے بلکہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔ اسی طرح نرسسز، ٹیکسی یا رکشہ ڈرئیورز، ٹانگہ بان وغیرہ کو مریض ریفر کروانے یا لے کر آنے پر کمیشن دینا انتہائی غلیظ حرکت ہے جو کسی بھی طرح مسیہائی شعبہ کی غمازی نہیں کرتا۔ تفصیل کے لئے کوڈ آف ایتھکس کا مطالعہ کریں
مریض کے علاج سے انکار کی صورت
اخلاقی طور کسی مریض کے علاج سے انکار صرف اس وجہ سے نہیں کیا جاسکتا کہ مریض لاعلاج ہے یا مزید اب کچھ ممکن نہیں۔مگرکچھ خاص حالات میں انکار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلی شقوں کے لئے بروشر دیکھیں۔
ادویات کے استعمال میں احتیاط
کسی بھی فوڈ آئٹم تجویز کرتے وقت احتیاط برتی جائے۔جبکہ اس میں پائے جانے اجزائ کے بارے آپ معلومات بھی نہ رکھتے ہوں۔ایسی چیزوں پر کمیشن وصول کرنا، لیکچر کروانا، ٹور پروگرام ارینج کرنا اور اس میں شرکت کرنا انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔ ہومیو ڈاکٹرکیلئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ڈاکٹری نسخہ میں کسی قسم کا چھپا اشارہ (Code Word) استعمال کرے جسے وہ یا اسکا اسسٹنٹ یا سٹور کا مالک ہی سمجھ سکتا ہو۔ کسی ہومیو ڈاکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی فارمیسی کے مالک یا فارماسسٹ کے ساتھ کاروباری شراکت کرکے تجویز ادویات پر کمیشن یا منافع کمائے۔ کسی ہومیو پریکٹشنر کو اجازت نہیں کہ وہ کسی بھی ہومیو فارمیسی / لیبارٹری کی پروڈکٹ یا دوا پر اپنی رائے کا اظہار کرے جب تک ادارہ یا فارمیسی اس بات کی گارنٹی نہ دے کے وہ رائے کسی بھی جگہ شائع نہیں کی جائے گی۔ ثبوت ملنے پر ہومیو ڈاکٹر کی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکتی ہے۔
اشتہارات اور کنونسنگ
Advertisements
ہومیو پریکٹشنر کسی ایسی اشتہاری مہم یا پریکٹس کا حصہ نہیں بنے گا جس کا مقصد مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا، ان کے لئے کشش پیدا کرنا، اشتہارات لگانا یا کسی قسم کے پیکج کا اعلان کرنا شامل ہو ۔ ایسی طرح اپنے ناموں کے کارڈوں کو ھوٹل، دوکان یا دوسری جگہوں پر رکھوانا یا چھوڑنا غلط ہے۔ اپنی تصویر کو اشتہاری نقطہ نگاہ سے دینا یا اخبارات میں پمفلٹ رکھوانا یاتقسیم کرنا ممنوع ہے۔ٹی وی یا ریڈیو وغیرہ پر کسی بھی قسم کے اشتہارات دینا جس سے پریکٹشنر کی زاتی تشہیر مقصود ہومنع ہیں۔ کونسل نے حال ہی میں تمام مشہور زمانہ ٹی وی اور اخباری ہومیوڈاکٹرز کی رجسٹریشن کینسل کردی ہے اور نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا ہے
ٹی وی ریڈیو کے لئے میڈیکل کے شعبہ کے پروگرام براڈکاسٹ کرنے کیلئے بطور میزبان (Anchor person) خدمات دینے والے کو نا معلوم (Annoymous) ہونا چاہئے۔صرف کلینک کے اوقات کار میں تبدیلی یا جگہ کی منتقلی کا نوٹس اخبار میں دیا جاسکتا ہے۔اخبارات، رسائل یا کتب کی اشاعت میں بھی زاتی تشہیر سے اجتناب کیا جائے، کتاب کے مصنف ہونے کی صورت میں اپنا نام اور ایڈریس لکھ سکتے ہیں مگر تصویر چھاپنے سے گریز کریں۔ اسی طرح اپنے عہدہ کا تزکرہ بھی نہ کریں۔ ہومیوپیتھک مفید مشورہ صرف میڈیکل سے متعلقہ رسائل میں شائع ہو سکتے ہیں۔ کوئی پریکٹشنر یہ دعویٰ نہ کرے کہ آرام نہ آنے کی صورت میں فیس واپس کردے جائے گی۔
مریض کی پوشیدہ معلومات Privacy اور پیشہ ورانہ فرائض
ایک پریکٹشنر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مریض کی وہ معلومات جو اس نے علاج کے دوران حاصل کیں ہوں بغیر مریض کی اجازت کے کسی بھی صورت میں کیسی بھی فورم پر عیاں کرے یا چھاپے۔ حکومت کو بھی کسی پریکٹشنرسے کسی مریض کی زاتی یا بیماریوں کی تفصیل جاننے کا اختیار حاصل نہیں ۔ خاص حالات میں حکومت معلومات حاصل کرنے کے لئے پہلے نوٹیفکیشن کرتی ہے اور جج پریکٹشنرکو باقائدہ سمن کے زریعے عدالت طلب کرکے معلومات حاصل کرتا ہے ایسی صورت میں بھی پریکٹشنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مریض سے متعلقہ معلومات عیاں (Disclose) کر دے۔ بہرحال ہومیو پریکٹشنر کسی مریض کے بارے پولیس، وکیل یا اداروں کو معلومات فراہم کرنے کا پابند نہیں۔ ایسے جنسی امراض جو ایک مریض سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیںکی صورت میں معلومات کو عیاں کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی مریض کسی ادارہ میں ملازم ہے اور وہ ادارہ پریکٹشنر سے مریض کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں بھی پریکٹشنر کو چاہئے کہ وہ مریض کی اجازت کے بغیر یہ معلومات مہیا نہ کرے۔انشورنس کے فارم بھرتے وقت پریکٹشنرپالیسی ھولڈر میں پائے جانے والی بیماریوں کے نام عیاں کرسکتا ہے مگر اس مرض کی وجوھات نہ لکھے۔ مثلاً اگر پالیسی ہولڈر کے بارے تشخیص ہو جائے کہ وہ ایڈز کا شکار ہے تو ایس صورت میں مرض ہونے کا سبب یا وجو ہات ضبط تحریر میں نہ لائے جس کی وجہ سے ایڈز ہوئی۔پریکٹشنرعلاقہ میں متعیں صحت عامہ کے عملہ یا دفتر کو علاقہ میں پائے جانی والی بیماریوں کے بارے معلومات فراہم کرسکتا ہے۔
ہومیوپریکٹشنرز کو چاہئے کہ نہ صرف وہ خود ان ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور اپنی اپنے پیشے کی نیک نامی میں اضافہ کریںبلکہ اپنی ساتھی اطبائ کو بھی اسکی ترغیب دیں۔


Thursday, May 13, 2010

Leucorrhea and Homeopathy

ہومیو ڈاکٹر محمد امین


لیکوریا

تعارف :
لیکوریا عام طور پر سفید مادہ کے اخراج کے نام سے جانا جاتا ہے جو زنانہ اعضائے تولید کی بیماری ہے جس میں سفید مادہ زنانہ ستر سے خارج ہوتا ہے۔ اس کا سنکرت نام شویتا پرادرا‘ دو الفاظ مجموعہ ہے شویتا کا مطلب سفید اور پرادرا کا مطلب اخراج۔
لیکوریا کی عام تعریف سفید مادہ ہوتا ہے جو زنانہ اعضائے تولید جنسی عضو سے خارج ہوتا ہے۔ یہ اخراج بالکل ہموار طور پر بہتا ہے یا پھر چپکنے والا اور گاڑھا ہوتا ہے۔ اس کی ہئیت خواتین کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے یا وہ بہت سفر کریں تو تبدیلی ہوتی ہے۔ زنانہ جنسی مخصوص عضو سے مادہ کا اخراج ایک خاص حد تک صحت مندی کی علامت اور عام بات ہے‘ یہ اخراج اصل میں اعضائے تولید کے مردہ خیلوں کا مائع صورت میں ہوتا ہے اور یہ وہ زہریلے اجزاءہوتے ہیں جو کہ مسلسل عضو سے خارج ہوتے رہتے ہیں۔ عام صحت مند خواتین میں یہ اخراج سفیدی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اخراج رنگت میں گاڑھا ‘لیسدار‘سفید رنگ اور جلن دار ہو جائے تو طبی معائنہ کی ضرورت ہے۔ علامات کے مطابق صورتحال جب سنگین اور اخراج میں کوئی غیرمعمولی عمل ہوتو درج ذیل حالات میں لیکوریا کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
۱۔ اگر اخراج بہت زیادہ اور مسلسل ہو اور اس کو روکنا مشکل ہو‘ یہاں تک پیڈ رکھنا پڑے۔
۲۔ اگر اخراج بالکل سفید نہ ہو بلکہ یہ سرمئی مائل سفید ہو‘ پیلا ہو یا سبز ہو‘ بھورا ہو یا زنگ جیسا ہو اور اخراج کے دوران خارش کا احساس ہو۔
اسباب :
درج ذیل کچھ مشہور اسباب ہیں۔
1- کسی قسم کی پھپھوندی سے ہونے والا انفیکشن
کوئی فنگس جیسے کہ خمیر اعضائے تولید یا جنسی اعضاءمیں انفیکشن کا باعث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لیکوریا ہو جاتا ہے جب یہ بیماری فنگس کی وجہ سے ہو تو اخراج گاڑھا ہو گا۔ سفید ہو گا اور اس کے ساتھ جنسی عضو میں خارش کا احساس ہو گا۔ اس قسم کے اخراج کو زنانہ عضو کی پھپھوندی کہا جاتا ہے۔
2- طور پر منتقل شدہ بیماری:
کچھ جنسی طور پر منتقل شدہ بیماریاں خواتین میں لیکوریا کا سبب بنتی ہیں۔ اس میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری Trichomoniasis ہے جس میں اخراج سبزی مائل یا پیلا ہوتا ہے۔
3 گندے بیت الخلائ سے:
بیت الخلاءکی اشیاءکا مشترکہ استعمال‘ خاص طور پر عوامی بیت الخلاءزنانہ جنسی عضاءکے انفیکشن کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں لیکوریا کا مرض ہو جاتا ہے۔ یہ ان خواتین میں دیکھنے میں آیا ہے جو جنسی عضو کی ادویات کا زیادہ استعمال کرتی ہیں۔
4- بچے دانی کے آخری تنگ حصے کے مسائل :
اس میں بچے دانی کے سرے پر چھالے یا ورم بھی لیکوریا کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس حالت میں لیکوریا کا اخراج بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ جنسی ملاپ کے دوران ہونے والے اخراج سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے اور جمے ہوئے خون سے مشابہت رکھتا ہے۔
5-کے نچلے حصہ کی سوزش:
پیلوس یا پیٹ کے نچلے (جس میں تولیدی و جنسی اعضاءہوتے ہیں) پیلوس میں انفیکشن کے باعث سوزش ہو سکتی ہے۔ اس حصے میں سوزش بھی لیکوریا کا سبب بنتی ہے
6- مختلف بیماریوں کی وجہ سے:
وہ خواتین جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جیسے کہ تپ دق‘ یا انیمیا (خون کی کمی) ان کے جنسی عضو سے اخراج کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے یہ ان خواتین میں دیکھا گیا ہے جو کہ بیماریوں کے خلاف مدافعت نہیں رکھتیں یا ناقص خوراک استعمال کرتی ہیں۔
7- دباﺅ اور تناﺅ:
لیکوریا کا کچھ سبب نفسیاتی بھی ہوتا ہے جو خواتین بہت دباﺅ میں رہتی ہیں‘ یا پریشانیوں کا شکار رہتی ہیں ان میں لیکوریا کا مرض ہوسکتا ہے۔اور بعض خواتین اتنی خوف زدہ ہوتی ہیں اور کلینک میں آکر کہتی ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری ہڈیاں گھل رہی ہیں۔
لیکوریا کی اقسام:
لیکوریا کی مختلف اقسام کی جماعت بندی اخراج کے رنگ اور اسباب کی بناءپر کی گئی ہے۔ درج ذیل جدول ان اقسام کا خلاصہ واضح کرتا ہے۔
لیکوریا کی قسم
سبب
اخراج کا رنگ
انفیکشن کا لیکوریا
پھپھوندی کے باعث ہونیوالا انفیکشن
گاڑھا اور سفید خارش کا احساس لئے ہوئے
جنسی طور پر منتقل شدہ لیکوریا
جنسی طور پر منتقل شدہ لیکوریا جیسے کہ Trichomoniasis
سبز اور پیلے رنگ کا اخراج
سرویکل لیکوریا
بچہ دانی کے سرے پر چھالے یا ورم آجانا
خون سے مشابہ زنگ کے جیسا بھورا اخراج
پیٹ کے نچلے حصہ ‘ جہاں اعضائے تولید ہوتے ہیں‘ کا لیکوریا
پیٹ کے اس حصے میں خرابی جو اعضائے تولید پر مشتمل ہوتا ہے‘ خاص طور پر اس حصے کی سوزش
سفید رنگ کا اخراج ‘ کمر کے نچلے حصہ میں درد کے ساتھ
ذہنی دباﺅ یا تناﺅ کے سبب ہونے والا لیکوریا
ذہنی دباﺅ اور تناﺅ
پتلا سیفد اخراج ‘ بہت زیادہ مقدار میں
لیکوریا کی علامت :
لیکوریا کی سب سے واضح علامت عام طور پر زنانہ جنسی عضو سے ہونے والے اخراج میں غیرمعمولی پن ہے۔ یہ اخراج درج ذیل علامات جیسا ہوتا ہے:
۱۔ عام حالت سے گہرے رنگ کا اکثر پیلا یا سبز یا بھورا
۲۔ سفید لیکن مقدار میں زیادہ
۳۔ اخراج کے ساتھ خارش کا احساس ہو اور پیٹ کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے۔
لیکوریا کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں:
لیکوریا ایک معمولی بیماری ہے اگر اس کو ابتداءمیں ہی پکڑ لیا جائے تو اور کسی کو اخراج میں کوئی غیرمعمولی پن محسوس ہو تو وہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ بروقت علاج سے یہ مسئلہ دو دن یا ایک ہفتہ میںحل ہو سکتا ہے۔
ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ لیکوریا میں کوئی بھی دوا ازخود استعمال نہیں کرنی چاہئے۔
بازار میں بہت سی کریمیں‘ مرہم اور گولیاں دستیاب ہیں۔ ان کو ماہر امراض نسواں کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ خواتین لیکوریا میں استعمال ہونے والی ادویات سے الرجی ہوتی ہے اس کی وجہ سے مزید انفیکشن ہو سکتا ہے اور معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے اس لئے بہتر ہے اس کی احتیاط کی جائے۔
لیکوریا کی منتقلی:
لیکوریا جو کہ خمیر کی طرح پھپھوندی سے منتقل ہوتا ہے اور عورت سے دوسری عورت میں بہت آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ جب ایک متاثرہ خاتون کے کپڑے ایک صحت مند خاتون کے کپڑوں سے ملیں گے اس کی وجہ سے یہ بیماری اسے بھی متاثر کر سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے زیر جامہ اچھی طرح اعلیٰ قسم کے ڈیٹرجنٹ سے دھوئیں جو کپڑوں پر لگی فنگس یا داغ کو صاف کر سکے۔ لیکوریا غیرمحفوظ جنسی رابطے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ ایک شخص کے گندے اعضائے تولید عورت کے گندے اعضائے تولید کو انفیکشن سے متاثر کر سکتے ہیں جو کہ لیکوریا کا باعث ہوسکتے ہیں۔
لیکوریا سے بچاﺅ:
بہت سی احتیاطی تدابیر ہیں‘ جن پر عمل کرنے سے لیکوریا سے بچا جا سکتا ہے۔
چند رہنماءاصول درج ذیل ہیں:
تولیدی اعضاءکی صفائی ستھرائی بہت اہم ہے۔
اپنے جنسی تولیدی اعضاءکو غسل کے دوران دھوئیں۔
Anus اینس اور ولوا Vulva زنانہ اعضائے تناسل کی تہوں پر پانی بہت زیادہ بہائیں۔
نہانے کے بعد اپنے صاف تولئے سے تولیدی اور تناسلی اعضاءکو خشک کریں۔
نہانے کے بعد تولیدی اور تناسلی اعضاءکو گیلا مت چھوڑیں۔
بہت زیادہ پانی پیئیں تاکہ جسم سے زہریلے مادے خارج ہوں۔
اس بات میں بہت باقاعدہ رہیں کہ پیشاب کے بعد اچھی طرح اس حصے کو صاف کرلیں۔
اگر بارش یا کام کے دوران کپڑے بھیگ جائیں تو انہیں فوراً تبدیل کرلیں۔ نائیلون کے کپڑوں سے احتیاط برتیں‘ خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں کیونکہ اس سے جنسی اعضاءمیں پسینہ جمع ہو جاتا ہے‘ زیر جاموں کیلئے سوتی کپڑا بہترین ہے۔
اگر آپ سے جنسی ملاپ کرنے جا رہے ہیںتواس بات کا اچھی طرح یقین کرلیں کہ آپ کا ساتھی کسی بھی قسم کے انفیکشن سے پاک ہو اس عمل کے بعد آپ کو اور آپ کے ساتھی کو اپنے جنسی اعضاءاچھی طرح دھونے چاہئیں‘ اس سے بہت سی بیماریوں سے بچ جائیں گے۔ جنسی عمل کے بعد اسے اپنا معمول بنا لیں۔
انگشت زنی سے مکمل پرہیز کیا جائے۔
تولیدی اعضاءکے اردگرد پاﺅڈر‘ پرفیوم اور دیگر کاسمیٹکس کا غیرضروری استعمال نہ کیا جائے۔ تناﺅ اور دباﺅ کو کم کرنے والی ورزشیں روانہ کی جائیں‘ صبح سویرے سیر کی جائے‘ اگر جسم دباﺅ سے پاک ہو گا تو اس میں بیماری کے خلاف مدافعت زیادہ ہوگی۔
لیکوریا سے بچاﺅ کیلئے خوراک:
لیکوریا سے بچاﺅ خوراک میں تبدیلی لا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے‘ نقصان دہ غذا کو خوراک میں سے نکال کر کچھ ایسی غذاﺅں کو خوراک میں شامل کرنا جو فائدہ مند ہوں۔
درج ذیل خوراک لیکوریا سے متاثر خاتون کیلئے مثالی ہے:
چینی سے پرہیز کرنا چاہئے اگر اخراج بہت زیادہ مقدار میں ہو‘ اس کا اطلاق تمام میٹھی چیزوں پر ہوتا ہے جیسے کہ مٹھائی‘ پیسٹری‘ کسٹرڈ‘ آئس کریم اور پڈنگ‘ کھمبیاں یا مشروم سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ یہ بھی پھپھوندی کی ایک قسم ہے۔ کچھ کھمبیاں آلودگی پیدا کرتی ہیں۔
گرم اور مصالحہ دار اشیاءجو کہ پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں‘ ان کو خوراک میں کم سے کم استعمال کرنا چاہئے۔
ہومیوپیتھک ادویات اور لیکوریا :
1- کلکریا کاربونیکا(کیلشیم کاربونیٹ) 200
ایک بہترین انٹی سورک دوا۔اور اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اس کا مریض سرد مزاج اور موٹاپا کی طرف مائل ہوتا ہے۔اس دوائی کا لیکوریا مقدار میں زیادہ جلن اورخارش والا ہوتا ہے جس کا رنگ دودھ کا سا اور کافی گاڑھا ہوتا ہے۔اور یہ سن بلوغت سے پہلے ہوتا ہے کلکریا سے بہترین رزلٹ لینے کے لیے سب سے پہلے ایک خوراک سلفر 200صبح نہار منہ زور دیں
2- پلساٹیلا نائگرہ 200-30
اس دوائی کی مریضہ بزدل‘فوراً اور سب کے سامنے آنسو بہانا‘اندر ہی اندر گم میں گھلنا خوش طبع اور چڑچڑاپن فرما بردار اور دوسروں کی مرضی کے آگے جھکنا ساون کے بادل کیطرح کبھی رونا اور کبھی ہنسنا نہایت ہی نرم دل خواتین جن میںخون کی کمی بھی پائی جاتی ہے ۔اور اس دوائی کو اعضاءتناسل کی دوا کہا جا سکتا ہے ۔لیکوریا عموماً گاڑھا چیپچپا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے اور یہ مرغن غذا ‘پھل‘کیک گرم غذا لینے سے بڑھتا ہے
3-سیپا200-30
یہ آلات تناسل زنانہ پر بہترین اثر کرنے والی دواءہے۔اور یہ نازک مزاج اورسفید رنگ والی خواتین جو جلد غصہ میں آجائیں سردی محسوس کریں اور ہر کام کی جلدی ہو اوران کی ناک اور گالوں پر بھورے رنگ کے داغ ہوں‘سیپا کی بیماری جوانی سے سن یاس کی عمر تک دیکھنے میں آتی ہیں۔مریضہ غمگین اور پست حوصلہ ہوتی ہے سیپا ہمدردی برداشت نہیں کرتی۔ایسی خواتین میں لیکوریا زردی مائل سبز اور قدرے بدبودار ہوتا ہے اور اکثر اعضا میں سوزش پیدا کردیتا ہے اور اعضاءمیں نیچے کی طرف دباﺅ کا احساس اور ایسا محسوس ہو جیسے شرمگاہ کے راستے ہر عضو باہر نکل آئے گا اور مجبوراً مریضہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتی ہے
4- کریازوٹ200-30
لیکوریا تیز جس میںسوزش پیداکرنے والی رطوبتیں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے شرم گاہ میں ٹیس اور شدید جلن ہوتی ہے اور لیکوریا زدر رنگ جس کی وجہ سے کپڑوں پر زرد رنگ کے نشان پڑھ جاتے ہیں‘شرم گاہ میں شدید خارش ہوتی ہے اور خواتین اپنے ہاتھوں سے ملتی رہتی ہیں
5- بوریکس200-30
اس دوائی میں لیکوریامعمولی سا گرم صاف‘مقدار میں زیادہ اور انڈے کی سفید کی ماندہ اور سوزش پیداکرنے والا ہوتا ہے۔ اور رانوں تک جا پہنچتا ہے۔مریضہ بے چین ہوتی ہے
6- ایلومینا200
اس دوائی میں لیکوریا کی رطوبت کو خشک کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔مریضہ کے ہاتھ پاﺅں سن ہوں‘ایسا لیکوریا جو ایڑیوں تک بہے‘بہت زیادہ مقدار میں لیکوریااور اعضائے تناسل میں جلن اور سوجن ہو جائے لیکوریا کی رطوبت اعضاءکو چھلتی جائے اور چلنا مشکل ہو جائے اور ٹھندے پانی سے فرج کو دوھونے سے آفاقہ ہوتا ہے
7- گریفائٹس200-30-6
لیکوریا سفید پتلا زیادہ مقدار میں جوچلنے سے بڑھے اور کمر میں کمزوری محسوس ہو اس کی مریضہ موٹی جلد کھردری اور زیادہ سردی محسوس کرتی ہے
8-سفلینم 1000
لیکوریا‘مقدار میں زیادہ زردی مائل سبز‘چھوٹی لڑکیوں میں لیکوریا تیز پانی کی طرح جس کی زیادتی رات کے وقت بستر میں لیٹنے سے ہو اور ضروری بات مریضہ آتشک کی ہسٹری رکھنے والی ہوتی ہے
ہومیوپیتھک میں بے شمار ایسی ادویات جن کی اگر تفصیل لکھنا شروع کی جائے تو کافی دن لگ سکتے ہیں آپ کو چند اہم ادویات کے بارے میں تھوڑی معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر اس میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی ضرور نشاندہی ہونی چاہیے شکریہ
دیگر اہم ادویات
آرسنک البم‘نائٹرک ایسڈ‘ایمونیم کارب‘نیٹرم میور‘کالی کارب‘فیرم میٹ‘چائنا‘تھلاسپی برسہ‘سٹینم‘کنگ اف ریمیڈی سلفر‘فاسفورس‘کالی بائیکروم‘کلکیریا فاس‘لائیکوپوڈیم‘نیٹرم کارب‘ہائیڈراسٹس‘ہیپر سلف اور دیگر ادویات
اذخود ادویات کا استعمال خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تما م ادویات اپنے معالج کی ہدایت پر استعمال کریں